بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

برآمدہ مسجد میں شامل ہے یا نہیں؟ مسجد میں اذان دینا


سوال

کیا مسجد کا صحن(یعنی برآمدہ) بھی مسجد میں شامل ہے ؟اگر ہےتو اس میں اذان دینا کیسا ہے ؟ہم نے سنا ہے کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مسجد کے برآمدے کو تعمیر مسجد کے وقت مسجد میں شامل کیا گیا تھا اور وہاں باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے ،تو اس صورت میں برآمدہ شرعی مسجد میں شامل ہوگا، اور عموماً مساجدمیں ایسا ہی ہوتاہے۔ایسی صورت میں برآمدے میں کوئی بھی ایسا عمل جو مسجد کے آداب کے منافی ہو ،کرنا جائز نہیں ہے۔

اور اگر تعمیر کے وقت اس حصے کو شرعی مسجد میں شامل نہیں کیاگیا تو اس صورت میں یہ شرعی مسجد میں شمار نہیں ہوگا۔

جہاں تک اذان دینے کا تعلق ہے تو اس سے متعلق حکم یہ ہے کہ اذان مسجد سے باہر کسی بلند جگہ پر دینا افضل اور بہتر ہے، مسجد کے اندر اذان دینا  مکروہ نہیں ہے،  بلکہ فی الجملہ ثابت بھی ہے،  لیکن مسجد کے اندرونی حصے میں اذان دینا مناسب نہیں ہے، تاہم  اگر کسی وجہ سے مسجد میں اذان  دے دی تو اذان ہوجائے گی۔

 اذان دینے کے لیے مساجد کے ساتھ مخصوص جگہ بنائی جاتی ہے جسے منارہ ، یا مئذنہ کہا جاتا ہے، اس کی اصل صحابہ کرام کے دور سے ثابت ہے، اس لیے اذان کے لیے مسجد سے باہر  ، قریب ہی میں ایسی جگہ بنالی جائے،اور مؤذن اسی جگہ میں اذان دے  دیا کرے۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

" اتفق الفقهاء على أن المراد بالمسجد الذي يصح فيه الاعتكاف، ما كان بناء معداً للصلاة فيه.

أما رحبة المسجد، وهي ساحته التي زيدت بالقرب من المسجد لتوسعته، وكانت محجراً عليها، فالذي يفهم من كلام الحنفية والمالكية والحنابلة في الصحيح من المذهب أنها ليست من المسجد، ومقابل الصحيح عندهم أنها من المسجد، وجمع أبو يعلى بين الروايتين بأن الرحبة المحوطة وعليها باب هي من المسجد. وذهب الشافعية إلى أن رحبة المسجد من المسجد، فلو اعتكف فيها صح اعتكافه، وأما سطح المسجد فقد قال ابن قدامة: يجوز للمعتكف صعود سطح المسجد، ولا نعلم فيه خلافاً". 

(ما يعتبر من المسجد وما لا يعتبر: ج:5،ص:224، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية، الكويت)

مشکوٰۃ شریف میں ہے :

"وعن مالك قال: بنى عمر رحبةً في ناحية المسجد تسمى البطيحاء و قال من كان يريد أن يلغط أو ينشد شعرًا أو يرفع صوته فليخرج إلى هذه الرحبة. رواه في الموطأ".

(ج:1،ص:232،باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ،المکتب الاسلامی بیروت)

المبسوط للشیبانی میں ہے:

"قلت: أرأيت المؤذن إذا لم يكن له منارة والمسجد صغير أين أحب إليك أن يؤذن، أيخرج من المسجد فيؤذن حتى يسمع الناس أو يؤذن في المسجد؟ قال: أحب ذلك إلي أن يؤذن خارجاً من المسجد، وإذا أذن في المسجد أجزاه".

(ج:1،ص:141،ط:ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے :

"والمئذنة بكسر الميم وسكون الهمزة المنارة ويجوز تخفيف الهمزة كما في المصباح، وهي محل التأذين، ويقال لها: منارة، والجمع مناير بالياء التحتية، وأول من أحدثها بالمساجد سلمة بن خلف الصحابي رضي الله تعالى عنه، وكان أميراً على مصر في زمن معاوية، وكان بلال يأتي بسحور لأطول بيت حول المسجد لإمرأة من بني النجار يؤذن عليه". 

(ج:1،ص:128،ط:مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں