بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ منورہ سے احرام کے بغیر حرم آجانا


سوال

میں اور میری والدہ تین سال پہلے عمرہ کرنے گئے تھے، عمرہ کرکے کچھ دن مکہ میں قیام کے بعد ہم مدینہ چلے گئے، پھر کچھ دن مدینہ میں قیام کے بعد دوبارہ مکہ آئے، مگر ہم احرام باندھ کر نہیں آئے، اگلے دن مسجد عائشہ جا کر احرام باندھا اور عمرہ ادا کیا، کیا ہم پر دم واجب ہوگا؟ اگر ہاں تو کس طرح دینا ہے، طریقہ بھی بتا دیں؟

جواب

واضح رہے کہ جو افراد مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں، یا میقات سے  باہر کے رہائشی ہیں وہ عمرہ کرنے کے بعد ،  اگر میقات سے تجاوز کرجائیں، جیسے مدینہ منورہ یا طائف، ریاض وغیرہ چلے جائیں تو  واپسی پر کسی میقات سے عمرہ کا احرام پہن کر عمرہ کرنا ضروری ہوتا ہے،  پس صورتِ مسئولہ میں مدینہ منورہ سے واپسی پر میقات ابیار علی ( ذوالحلیفہ ) سے احرام کی نیت کرنا سائل اور اس کی والدہ  کے لیے ضروری تھا، پس اگر عمرہ کی نیت کے بغیر مذکورہ افراد حدود حرم میں داخل ہوگئے تھے تو اب ان کو دم ادا کرنا ضروری ہوگا، دم سے بچنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اسی سفر میں  مکہ سے کسی قریبی میقات ( جو کہ طائف کے قریب ہے) جا کر عمرہ کی نیت سے احرام پہن کر عمرہ ادا کرلیتے۔

ملحوظ رہے کہ مسجدِ عائشہ میقات نہیں ’’حل‘‘ ہے، حدودِ حرم میں رہنے والے افراد وہاں سے عمرہ کی نیت کر سکتے ہیں، تاہم وہ افراد جو میقات سے تجاوز کر جائیں تو ان کے لیے میقات سے احرام کی نیت ضروری ہے، مسجدِ عائشہ سے نیت کرنا درست نہیں، لہذا سائل اور اس کی والدہ چوں کہ سفر عمرہ سے اپنے گھر واپس ہوچکے ہیں، لہذا ان میں سے ہر ایک پر ایک ایک دم ( چھوٹا جانور بکرا، بکری وغیرہ ) لازم ہوچکا ہے، جس کی ادائیگی حدودِ حرم میں کرنا شرعاً ضروری ہے، چاہے خود حدود حرم میں جاکر دم ادا کردیں یا کسی واقف کار کو  دم کی رقم دے کر اس کے ذریعہ دم ادا کروا دیں۔

تنوير الأبصار مع الدر المختار مع رد المحتار  میں ہے:

"(وحرم تأخیر الإحرام عنها) کلّها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مکة) یعني الحرم (ولو لحاجة) غیر الحج، أمّا لو قصد موضعاً من الحلّ کخلیص وجدة، حلّ له مجاوزته بلا إحرام... إلخ"

(قوله: أي لآفاقي) أي ومن ألحق به کالحرمي والحلي إذا خرجا إلی المیقات کما یأتي، فتقییده بالآفاقي للاحتراز عما لو بقیا في مکانهما، فلایحرم، کما یأتي". ( کتاب الحج، مطلب في المواقیت، ٢ / ٤٧٧، ط: سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں