بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدہوشی میں طلاق دینےکاحکم


سوال

میں پچھلے دس سال سے بسلسلہ روزگار دبئی میں مقیم ہوں، اور کافی عرصے سے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں، ڈاکٹر کے پاس جانے سے معلوم ہوا کہ کمر کی ہڈی اپنی جگہ پر نہیں ہے، پچھلے چھ دنوں سے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق کچھ دوائیاں استعمال کر رہا ہوں ،بقول ڈاکٹر اس دوائی سے نیند کا غلبہ اور چکر بھی آسکتا ہے، دوائیاں چونکہ درد اور دماغی سکون کے لیے ہے،کسی وقت دوائی کے استعمال سے بالکل پتہ نہیں چلتا کے میں کیا کہہ رہاہوں، اور کیا کر رہا ہوں، اور غصہ کی ایسی کیفیت ہو جاتی ہے کہ جو قابو سے باہر ہو جاتی ہے، پھر مجھے کچھ معلوم نہیں ہوتا ،چونکہ ڈرائیور ہوں اسی کیفیت کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا کہ میری بیوی کی کال آئی، تو میں نے کاٹ دی، دوبارہ کال آئی تو میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، اور پھر شدت غصہ سے طبیعت غیر ہو گئی، تو پھر گاڑی روک دی، اب میں اپنی بیوی کو رکھنا چاہتا ہوں، شریعت کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں ۔

نوٹ:(Pregadex ) دوا کا نام ہے ،اس کی تفصیل آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔

دواسےپیداہونےوالی ممکنہ کیفیات:

ڈپریشن، مزاج یا رویے میں غیر معمولی تبدیلیاں، خودکشی یا مرنے کے بارے میں خیالات، بے خوابی، خودکشی کی کوشش، چڑچڑا پن، نیا یا بدتر ڈپریشن، جارحانہ برتاؤ، غصہ، یا پرتشدد، نئی یا بدتر پریشانی، عمل کرنا۔ خطرناک جذبات، مشتعل یا بے چین محسوس ہونا، سرگرمی اور بات کرنے میں انتہائی اضافہ (انماد)، گھبراہٹ کا دورہ، اور رویے یا موڈ میں غیر معمولی تبدیلیاں۔

جواب

بہتر یہ ہوگا کہ کسی مفتی صاحب کے پاس حاضر ہوکر اور کیفیت بتلاکر ان سے مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔

تاہم سوال میں ذکر کردہ اَحوال کے مطابق  جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں سائل نے جس وقت طلاقیں دیں اس وقت وہ گاڑی چلا رہا تھا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عقل قائم اور حواس بحال تھے اور سائل نے ہو ش وحواس اور اختیار سے طلاقیں دی ہیں اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،بیوی سائل پرحرمتِ مغلظہ کےساتھ  حرام ہوچکی ہے،اب سائل کےلیےبیوی اپنےپاس رکھنےکی گنجائش نہیں ہے،عدت مکمل ہونےکےبعدسائل کی بیوی کہیں اورنکاح کرنےمیں آزادہے۔

 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يقع طلاق الصبي وإن كان يعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمى عليه والمدهوش هكذا في فتح القدير. وكذلك المعتوه لا يقع طلاقه أيضا وهذا إذا كان في حالة العته أما في حالة الإفاقة فالصحيح أنه واقع هكذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه،فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه،٣٥٣/١،ط:رشيدية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"وأما السكران، فإن كان غير متعد بسكره، كما إذا سكر مضطرا، أو مكرها أو بقصد العلاج الضروري إذا تعين بقول طبيب مسلم ثقة، أو لم يعلم أنه مسكر، لم يقع طلاقه بالاتفاق، لفقدان العقل لديه كالمجنون دون تعد، هذا إذا غاب عقله أو اختلت تصرفاته، وإلا وقع طلاقه."

(حرف الطاء،١٦/٢٩،ط:دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں