بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ منورہ سے بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا حکم


سوال

میں اور میری بیوی نے 2001 میں عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے اور ہم نے مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کیا ، 6دن بعد ہم مدینےپہنچے اور چند دن بعد ہم واپس مکہ کے لیے روانہ ہوئے مگر واپسی میں ہم نے مسجد عائشہ سے تو احرام باندھا اور  لیکن  عمرے کی نیت نہیں کی تو کیا اب ہمیں دم دینا ہوگا ؟ اور کیا عمرہ بھی ادا کرنا ہوگا ؟

کیوں کہ پچھلے دنو ں مکی حجازی صاحب جو حرم شریف میں سوالوں کے جوابات دیتے ہیں ان سے کسی صاحب نے سوال پوچھا تھا کہ وہ مکہ سے طائف گھومنے گئے تھے اور واپس مکہ آنےپر انہوں نے عمرہ ادا نہیں کیا ، حجازی صاحب نے جواب دیا کہ :آپ کو دم بھی دینا ہوگا اور عمرہ بھی طائف سے ادا کرنا ہوگا ۔

اس بات کاہمیں پہلے علم نہیں تھا حالانکہ میں 2017 میں اکیلےعمرے کی ادائیگی کے لیے گیا تھا اور مدینے سے عمرہ بھی ادا کیا تھا ، ازراہ کرم اس معاملے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں ؟

وضاحت : مکہ میں واپس آنےکے بعد ہم  نے مسجد عائشہ سے ایک دو عمرے کیے تھے۔

جواب

 واضح رہے کہ جو افراد مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں، یا میقات سے  باہر کے رہائشی ہیں وہ عمرہ کرنے کے بعد ،  اگر میقات سے باہر چلےجائیں، جیسے مدینہ منورہ یا طائف، ریاض وغیرہ  تو  واپسی پر کسی بھی  میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر آنا اور  عمرہ کرنا ضروری ہوتا ہے،  پس صورتِ مسئولہ میں مدینہ منورہ سے واپسی پر میقات سے احرام کی نیت کرکے آنا سائل اور اس کی بیوی پر ضروری تھا، اب جب احرام کے بغیر ہی مدینہ سے مکہ آئے تو ایک دم بھی لازم ہے اور قضاء کی نیت سے ایک عمرہ کرنا بھی لازم تھا البتہ سائل اور اس کی بیوی نے اسی سفر میں مسجد عائشہ سے عمرہ ادا کیا تو عمرہ ادا ہوگیا قضاء لازم نہیں لیکن میقات سے احرام کے بغیر مکہ آنے کی وجہ سے ایک ایک دم ادا کرنادونوں پر لازم ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحرم تأخیر الإحرام عنها) کلّها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مکة) یعني الحرم (ولو لحاجة) غیر الحج، أمّا لو قصد موضعاً من الحلّ کخلیص وجدة، حلّ له مجاوزته بلا إحرام.

(قوله: أي لآفاقي) أي ومن ألحق به کالحرمي والحلي إذا خرجا إلی المیقات کما یأتي، فتقییده بالآفاقي للاحتراز عما لو بقیا في مکانهما، فلایحرم، کما یأتي".

( کتاب الحج، مطلب في المواقیت،2/ 477، ط: سعید)

البحر العمیق میں ہے :

"وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجه الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیه حجة أو عمرة قضاء ما علیه ودم لترک الوقت۔"

(الباب السادس فى المواقيت ، مجاوزة الميقات بغير احرام ، ص: 622،ط: المكتبة المكية )

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو جاوز الميقات يريد دخول مكة أو الحرم من غير إحرام يلزمه إما حجة وإما عمرة؛ لأن مجاوزة الميقات على قصد دخول مكة أو الحرم بدون الإحرام لما كان حراما كانت المجاوزة التزاما للإحرام دلالة، كأنه قال: لله تعالى علي إحرام، ولو قال ذلك يلزمه حجة أو عمرة، كذا إذا فعل ما يدل على الالتزام كمن شرع في صلاة التطوع ثم أفسدها يلزمه قضاء ركعتين، كما إذا قال: لله تعالى علي أن أصلي ركعتين، فإن أحرم بالحج أو بالعمرة قضاء لما عليه من ذلك لمجاوزته الميقات، ولم يرجع إلى الميقات، فعليه دم؛ لأنه جنى على الميقات لمجاوزته إياه من غير إحرام، ولم يتداركه فيلزمه الدم جبرا، فإن أقام بمكة حتى تحولت السنة ثم أحرم يريد قضاء ما وجب عليه بدخوله مكة بغير إحرام، أجزأه في ذلك ميقات أهل مكة في الحج بالحرم، وفي العمرة بالحل؛ لأنه لما أقام بمكة صار في حكم أهل مكة فيجزئه إحرامه من ميقاتهم، فإن كان حين دخل مكة عاد في تلك السنة إلى الميقات فأحرم بحجة عليه من حجة الإسلام أو حجة نذر أو عمرة نذر، سقط ما وجب عليه لدخوله مكة بغير إحرام استحسانا، والقياس أن لا يسقط إلا أن ينوي ما وجب عليه لدخول مكة، وهو قول زفر، ولا خلاف في أنه إذا تحولت السنة ثم عاد إلى الميقات ثم أحرم بحجة الإسلام، أنه لا يجزئه عما لزمه إلا بتعيين النية.

وجه القياس: أنه قد وجب عليه حجة أوعمرة بسبب المجاوزة، فلا يسقط عنه بواجب آخر كما لو نذر بحجة أنه لا تسقط عنه بحجة الإسلام.

وكذا لو فعل ذلك بعد ما تحولت السنة، وجه الاستحسان أن لزوم الحجة أو العمرة ثبت تعظيما للبقعة، والواجب عليه تعظيمها بمطلق الإحرام لا بإحرام على حدة، بدليل أنه يجوز دخولها ابتداء بإحرام حجة الإسلام، فإنه لو أحرم من الميقات ابتداء بحجة الإسلام أجزأه ذلك عن حجة الإسلام، وعن حرمة الميقات، وصار كمن دخل المسجد وأدى فرض الوقت، قام ذلك مقام تحية المسجد."

( كتاب الحج ، فصل فى بيان مكان الإحرام ، 2/ 165، ط : رشیدیه)

غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک میں ہے:

"آفاقی مسلم مكلف أراد دخول مكة أو الحرم ۔۔وجاوز  آخر مواقيته غير محرم  ثم أحرم  أو لم يحرم أثم ولزمه دم وعليه العود إلى ميقاته الذي جاوزه أو إلى غيره أقرب أو أبعد،وإلى ميقاته الذي جاوزه أفضل۔۔۔فإن لم يحرم وعاد بعد تحول السنة أو قبله ماحرم بما لزمه بالمجاورة من الميقات سقط الاثم والدم بالاتفاق، وكذا إن عاد من عامه ذلك فأحرم بغيره سقط عندنا."

(فصل فى مجاوزة الآفاقى وقته من غير إحرامه ،ص:105 ،ط: المصباح ۔ لاهور )

عمدۃ الفقہ میں ہے :

"پس اگر وہ اسی سال کسی میقات پر لوٹ آیا اور حج فرض قضاء یا ادا یا حج ِنذر یا عمرهٔ نذر یا عمرۂ قضاء یا عمرۂ سنت یا عمرہ مستحب کا احرام باندھ لیا تو بلا احرام داخل ہونے کی وجہ سے جو غیر متعین حج یا عمرہ اس پر واجب ہواتھا اس سے ساقط ہو جائے گا اور اسی طرح بلااحرام میقات سے گزرجانے کا جودم (قربانی ) اس پر واجب ہواتھا وہ میقات پر احرام باندھ کر تلبیہ کہنے سے اس کے ذمہ سے اتر جائے گا اگرچہ احرام میں اس نے اس خاص چیز کی نیت نہ کی ہو جو اس پر لازم ہوئی تھی ۔۔۔اور اگر بلااحرام میقات سے گزرجانے کے بعد احرام باندھ لیالیکن میقات پر واپس نہیں آیا  تو اس سے دم ساقط نہیں ہوگا ۔"

(کتاب الحج، ج: 4 ، ص: 102 ، ط: زوار اکیڈمی)

احسن الفتاوی میں   ہے:

"حج یا عمرہ میں بدون احرام تجاوز کی وجہ سے واجب کی ادائیگی کی نیت ضروری نہیں بلکہ حج یا عمرہ نفل یا نذر یا حج فرض جو نیت بھی کرے گا اس سے بدون احرام تجاوز کا واجب ادا ہوجائے گا ۔"

(کتاب الحج ، ج:4،ص: 527، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401100008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں