بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ مسجد سے متعلق جاری فتوی پر اشکال اور اس کا جواب


سوال

حضرت مفتی صاحب دریافت یہ کرنا تھا کہ طارق روڈ کراچی میں واقع مدینہ مسجد کے بارے میں آپ کے دار الافتاء سے ایک فتوی جاری ہوا تھا، جس میں ایک جزئیہ پر مجھے اشکال ہے، امید ہے کہ آپ حضرات میرے اشکال کو حل فرمائیں گے، وہ یہ ہے کہ آپ کے فتویٰ میں یہ الفاظ موجود ہیں 

ہ: مسجد ایک مرتبہ بن جانے کے بعد ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے حتی کہ فقہاء نے تصریح کی ہے، کہ اگر کسی نے غصب کر کے زمین حاصل کر لی اور اس پر مسجد تعمیر کرلی تو غاصب سے یہ تو کہا جائے گا کہ مالک کو ضمان ادا کردے البتہ مسجد کو نہیں توڑا جائے گا" (فتوی نمبر 144305100763)

جب کہ فقہاءکرام کی تصریح اس کے خلاف ہے کہ غصب کی ہوئی زمین میں مسجد منہدم کرنی ہے، ملاحظہ ہو :

فتح القدیر 6/ 216 ط: دار الکتب العلمیۃ میں ہے:

"وأما المسجد فخالص حق الله تعالى ‌وما ‌هو ‌خبيث ‌لا ‌يصلح ‌لله ‌تعالى ولهذا قالوا: لو اشترى دارا لها شفيع فجعلها مسجدا كان للشفيع أن يأخذها بالشفعة، وكذا إذا كان للبائع حق الاسترداد كان له أن يبطل المسجد"۔

اور فتاوی شامی 4/ 341 ط:سعید میں ہے:

"وينقض وقف ‌استحق ‌بملك أو شفعة، وإن جعله مسجدا"۔

اب اس اشكال كا کیا حل ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کے لیے وقف جگہ ہوتی  ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے۔چوں کہ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا، اس لئے غصب کر کے مسجد بنانا جائز نہیں  جب تک مالک سے اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے۔ ایسی مسجد میں  عمداً نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ راجح قول کے مطابق نماز ادا ہوجائے گی۔

تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہر علاقے میں لوگوں کی ضرورت کے مطابق مسجد بنانا فرضِ کفایہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لہذا اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے، یہ غصب میں شمار نہیں ہوگا، اس لئے کہ مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی۔

البتہ اگر کسی نے غصب کی گئی یا سبب فاسد کی بناء پر حاصل کی گئی زمین پر اس کے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد تعمیر کر لی تو  کیا اس کو توڑا جائے گا یا اس کی قیمت اداکی جائے گی؟ اس سلسلے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں، بعض فقہاء کا قول یہ ہے کہ اس مسجد کو توڑا جائے گا اور جگہ خالی کرکے اصل مالک کے حوالے کی جائے گی، یہ قول امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ہے اور امام محمد رحمہ اللہ کی بھی ایک روایت یہی ہے، جیسا  کہ  فتح القدیر کی آپ کی ذکر کردہ  عبار ت سے چند سطور قبل مذکور ہے۔ جبکہ کچھ فقہاء کا قول یہ ہے کہ مسجد کو توڑنے کے بجائے اس جگہ کی قیمت مالک کو ادا کردی جائے اور مسجد کو برقرار رکھا جائے، جیسا کہ اگر کسی نے مغصوبہ زمین پر مکان وغیرہ تعمیر کرلیا تو علی الاطلاق اس مکان کو نہیں توڑا جاتا بلکہ اگر مغصوبہ زمین پر تعمیر کا خرچہ اس زمین کی قیمت سے زیادہ ہو تو پھر اس زمین کی قیمت مالک کو  ادا کی جاتی ہے، یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے اور فتح القدیر کی مذکورہ عبارت سے واضح ہےاور امام محمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی منقول ہے، جیسا کہ ذیل میں درج البحرالرائق کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔

جب فقہاء کی آراء مختلف ہوں تو پھروقت کے مفتیان کرام زمانے اور حالات کی مناسبت سے کسی بھی قول کو ترجیح دے سکتے ہیں، لہذا   جب   حکومتِ وقت  اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور مسلمانوں کی دینی ضرورت کو پورا کرنے  کے بجائے اس سے نہ صرف منہ موڑ رہی ہو بلکہ  قانونی و شرعی تقاضوں کے مطابق تعمیر کی گئی مساجد کے انہدام کے لئے کمربستہ ہوتو ایسے وقت میں مذکورہ مسئلہ میں وقت کے کبار  علماء و مفتیانِ عظام (علامہ محمد یوسف بنوری، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع  وغیرہم رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ)نے فقہاء کے اس قول کو ترجیح دی کہ  اگر (بالفرض ) ان جگہوں کو غصب شدہ تسلیم کرلیا جائے تو فقہاء کی تصریحات  کے مطابق مسجد کو منہدم کرنے کے بجائے مالک کو اس کی قیمت ادا کردی جائے۔( بحوالہ: فتویٰ مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ، جاری شدہ:13 رجب 1382ھ/ 1963ء)

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ حکم کسی کی ذاتی ملک کو غصب کرکے مسجد بنانےسے متعلق ہے، البتہ اگر کسی نے اپنی اس دینی ضرورت کی خاطر سرکار کی وہ زمین جو مصالحِ عامہ کے لئے مختص ہو، غصب کرکے مسجد بنالی(اگرچہ عام احوال میں اس کی بھی شرعاً اجازت نہیں) تو اس کا حکم عام آدمی کی زمین کو غصب کرنے جیسا نہیں ہے، اس لئے کہ سرکار کی زمین وہ عام مسلمانوں کے مصالح کے لئے ہے اور  نماز سے بڑھ کر کسی کی کوئی ضرورت اور مصلحت نہیں  ہے، جیسا کہ فقہاء کی ذیل  میں درج عبارات سے واضح ہے۔

سوال میں مذکور فتح القدير كي مكمل عبارت درج ذیل ہے:

"ولا يجوز مشاعا عند أبي يوسف، ولا يشترط التسليم إلى المتولي عند محمد أفرده بفصل على حدته وأخره. هذا ويمكن أن يجعل من ذلك أيضا ما لو اشترى أرضا شراء فاسدا وقبضها، ثم وقفها على الفقراء جاز وعليه قيمتها للفقراء، ولو اتخذها مسجدا قال الفقيه أبو جعفر: ذكر محمد في كتاب الشفعة أنه لو اشترى أرضا شراء فاسدا وبناها بناء المسجد جاز عند أبي حنيفة - رضي الله عنه - وعليه قيمتها للبائع وقول أبي يوسف ومحمد ينقض البناء وترد الأرض إلى البائع بفساد البيع.

قال: فاشتراط البناء له دليل على أن لا يكون مسجدا قبل البناء عند الكل. وذكر هلال أنه يصير مسجدا في قول أصحابنا فصار فيه روايتان. قال الفقيه أبو جعفر: في الوقف أيضا روايتان. والفرق على إحداهما عند هذا القائل أن في الوقف حق العباد كالبيع والهبة، وأما المسجد فخالص حق الله تعالى وما هو خبيث لا يصلح لله تعالى ولهذا قالوا: لو اشترى دارا لها شفيع فجعلها مسجدا كان للشفيع أن يأخذها بالشفعة، وكذا إذا كان للبائع حق الاسترداد كان له أن يبطل المسجد."

(فتح القدير، کتاب الوقف،فصل إذا بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه، 232،233/6، دار الفكر)

سوال میں مذکور فتاویٰ شامی کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:

"(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد، وأن لا يكون محجورا عن التصرف، حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح، ولو أجاز المالك وقف فضولي جاز وصح وقف ما شراه فاسدا بعد القبض وعليه القيمة للبائع وكالشراء الهبة الفاسدة بعد القبض، بخلاف ما لو اشتراه بخيار البائع فوقفها وإن أجاز البائع بعده وينقض وقف استحق بملك أو شفعة، وإن جعله مسجدا ووقف مريض أحاط دينه بماله بخلاف صحيح وسيأتي تمامه حكم وقف المرهون قبيل الفصل."

(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الوقف، مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة،340،341/4،سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(ومن أخرج إلى طريق العامة كنيفا أو ميزابا أو جرصنا أو دكانا فلكل نزعه) أي لكل أحد من أهل المرور الخصومة مطالبة بالنقض كالمسلم البالغ العاقل الحر وكالذمي؛ لأن لكل منهم المرور بنفسه وبدوابه فتكون له الخصومة بنفسه كما في الملك المشترك بخلاف العبيد والصبيان المحجور عليهم حيث لا يؤمر بالهدم بمطالبتهم؛ لأن مخاصمة المحجور عليهم لا تعتبر في ماله بخلاف الذمي هذا إذا بنى لنفسه قيد بما ذكر ليحترز عما إذا بنى للمسلمين كالمسجد ونحوه فلا ينتقض كذا روي عن محمد - رحمه الله."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ،كتاب الديات،باب ما يحدث الرجل في الطريق،8 / 395، دار الکتاب الاسلامی)

وفیہ ایضاً:

"‌وفي ‌الخانية ‌طريق ‌للعامة وهي واسعة فبنى فيه أهل المحلة مسجدا للعامة ولا يضر ذلك بالطريق قالوا لا بأس به وهكذا روي عن أبي حنيفة ومحمد لأن الطريق للمسلمين والمسجد لهم أيضا."

(البحر الرائق، کتاب الوقف، قبیل کتاب البیوع،276/5،ط: دار الکتاب الاسلامی۔ وهکذا فی الهندية، 456/2،ط: رشیدیة)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله وكذا لو غصب أرضا إلخ) هذه مسألة الساحة بالحاء وستأتي متنا: أي فلو قيمة البناء أكثر يضمن الغاصب قيمة الأرض ولا يؤمر بالقلع وهذا قول الكرخي... وكذا فيما سيأتي حيث قيد قول المتن، يؤمر بالقلع بما إذا كانت قيمة الأرض أكثر فما اقتضاه التشبيه في قوله: وكذا لو غصب أرضا من أنه لا يؤمر بالقلع صحيح،؛ لأن الكلام فيما إذا كانت قيمة البناء أكثر ولم يتعرض لكلام غير الكرخي، وإن كان المفتى به كما علمت فافهم."

(رد المحتار، کتاب الغصب، 192/6، سعید)

الموسوعة الفقهية الكويتية   میں ہے:

"يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية".

(الموسوعة الفقهية الكويتية ، ‌‌بناء المساجد وعمارتها ووظائفها،37 / 195)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌الصلاة ‌في ‌أرض ‌مغصوبة ‌جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب. كذا في مختار الفتاوى الصلاة جائزة في جميع ذلك لاستجماع شرائطها وأركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. كذا في الهداية فإن كانت تلك الكراهة كراهة تحريم تجب الإعادة أو تنزيه تستحب فإن الكراهة التحريمية في رتبة الواجب كذا في فتح القدير."

(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الصلوٰۃ،الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره،109/1، رشیدیۃ)

مراقی الفلاح میں ہے:

"وتكره في أرض الغير بلا رضاه، و إذا ابتلي بالصلاة في أرض الغير و ليست مزروعةً أو الطريق إن كانت لمسلم صلى فيها، و إن كانت لكافر صلى في الطريق".

( كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة، فصل في المكروهات، ص: 130، المکتبۃ العصریۃ)

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"قوله: "ولا بأس بالصلاة الخ" لأنه لا نجاسة فيه كذا في قاضيخان ولأنه ليس من الحمام لما مر من الإشتقاق أفاده بعض الحذاق قوله: "وتكره في أرض الغير بلا رضاه" بأن كانت لذمي مطلقا لأنه يأبى أو لمسلم وهي مزروعة أو مكروبة ولم يكن بينهما صداقة ولا مودة أو كان صاحبها سيء الخلق ولو كان في بيت إنسان الأحسن أن يستأذنه وإلا فلا بأس كما في الفتح وفي مختارات الفتاوى الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين العباد يعاقب كما في الفتاوى الهندية قوله: "صلى فيها" لأن الظاهر أنه يرضى بها لأنه ينال أجرا من غير اكتساب منه ولا أذن في الطريق لأنه حق المسلم والكافر كذا في الشرح قوله: "صلى في الطريق" لأنه لا يرضى بها كذا في البرهان والطريق ليست للكافر على الخصوص كذا في الشرح".

( كتاب الصلاة، فصل في المكروهات، ص: ٣٥٨، دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں