بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مد اصلی کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار اور جس آیت کے آخر میں مد نہ ہو اس پر وقف کرتے وقت مد کرنے کا حکم


سوال

سورہ اخلاص کی دوسری آیت میں لفظ اللہ پر مد کرنا کیسا ہے ؟

غنہ ، اخفاءاور مد کو اصل مقدار سے زیادہ طویل کرنا کیسا ہے؟

دوران نماز آیت کے آخری الفاظ پر مد کیا جاتا ہے جب کہ مد نہیں ہوتا،یہ عمل کیسا ہے ؟ اگر درست ہے تو مد کی مقدار کتنی ہو؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں سورۂ اخلاص کی دوسری آیت میں لفظ ِ اللہ میں حرفِ مدہ (الف)ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے مدِ اصلی یعنی مدِ طبعی  ہے اور مداصلی یعنی طبعی کی مقدارایک الف کے برابر ہے، اس کو ایک الف سے کم کرنااور ایک الف سے بڑھاناحرام اور فحش غلطی ہے۔

2:غنہ،اخفاء اور مدات کو ان کی اصل مقدار سے ایسےطویل کرنا کہ جس سےاس میں کوئی حرف زائد ہوجائے حرام  ہے۔

3:دورانِ نماز کسی ایسےحرف پر وقف کرکے مد کرنا جو کہ اصل میں ساکن  نہیں ہوتا بلکہ وقف کی وجہ سےساکن ہوا ہوتا ہے،اگر اس ساکن سے پہلے حرف مدہ(الف،واؤ اور یاءمیں سے کوئی)ہو،تواس پر مد کرنا اور نہ کرنا(یعنی صرف ایک الف کے برابر پڑھنا) دونوں جائز ہیں،اور مد کرنے کی صورت میں طول(تین الف کے برابر)اورتوسط(دو الف کے برابر)کھینچناسب جائز ہے۔

"المنح الفكرية في شرح المقدمة الجزرية لملا علي قاري"میں ہے:

"ثم المد نوعان أصلي وهوا اللازم لحروف المد الذي لاينفك عنها بل ليس لها وجود بعدمه لابتناء بنيتها عليه ويسمي مدا ذاتيا وطبيعيا وامتداده قدر ألف."

(ص:٥٠،باب المدات،ط:مصطفی البابی الحلبی،مصر)

وفيه ايضا:

"وكذا اذا زاد في المد الأصلي والطبيعي علي مده العرفي من قدر ألف بأن جعله قدر ألفين أو أكثر كما يفعله أكثر الأئمة من الشافعية والحنفية في الحرمين الشريفين في الحرم المحترم فإنه محرم قبيح لا سيما وقد يقتدى بهم بعض الجهلة ويستحسن ما صدر عنهم من القراء."

(ص:٥٦،باب المدات،ط:مصطفی البابی الحلبی،مصر)

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني"میں ہے:

"إن كانت الألحان لا تغير الكلمة عن وصفها، ولا يؤدي إلى تطويل الحروف التي حصل التغني لها، حتى لا يصير الحرف حرفين، بل لتحسين الصوت ويزيّن القراءة لا يوجب ذلك فساد الصلاة، وذلك مستحب عندنا في الصلاة، وخارج الصلاة، وإن كان يغير الكلمة عن وضعها يوجب فساد الصلاة؛ لأن ذلك منهي، وإنما يجوز إدخال المد في حروف المد واللين والهوائية، والمعتل نحو الألف والواو والياء والله أعلم."

(ص:٣٣٦،ج:١،کتاب الصلاة،‌‌الفصل السادس عشر في التغني والألحان،ط:دار الكتب العلمية)

’’جمال القرآن‘‘ میں ہے:

’’اگر حرفِ مدہ کے بعد کوئی حرف ساکن ہوجس کا سکون اصلی نہ ہو یعنی اس پر وقف کرنے کے سبب سکون ہوگیا ہو تو اس مدہ پر مد کرنا جائز ہے اور نہ کرنا بھی درست ہے،لیکن کرنا بہتر ہے،جیسےالحمد للہ ربّ العٰلمین پر،اور اس کو مد وقفی اور مد عارض بھی کہتے ہیں اور یہ تین الف کےبرابر ہے اور اس کو طول بھی کہتے ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ دو الف کے برابر مد کریں اور اس کو توسط کہتے ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ بالکل مد نہ کریں،یعنی ایک ہی الف کے برابر پڑھیں کہ اس سے کم میں حرف ہی نہ رہے گا،اس کو قصر کہتے ہیں۔‘‘

(ص:٣٥،الف،واؤ اور ياء كے قاعدوں میں،ط:مکتبۃ  البشریٰ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں