بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے اخراجات کےلئے نظم بنانا


سوال

 اگر ایک دینی ادارہ وصول ہونے والے واجب صدقات (زکات وغیرہ) کے لیے درج ذیل نظم بنائے تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہوگا؟ 1- ادارہ مستحق طلبہ کو مطبخ، جیب خرچ اور دیگر اخراجات کی مد میں واجب صدقات سے ماہانہ وظیفہ جاری کرے، اور جیب خرچ تو طلبہ کے حوالے کردے، لیکن مطبخ اور دیگر اخراجات کے عنوان سے دیا گیا وظیفہ مدرسہ انتظامیہ ان طلبہ کو دے کر اسی وقت ان سے وصول کرلے تو کیا یہ تملیک کے لیے کافی ہوگا؟ جس کی صورت یہ ہوگی کہ مستحق طلبہ یا افراد دفترِ مالیات میں آکر مقررہ وقت پر اپنا جیب خرچ اور دیگر اخراجات کا وظیفہ ایک کاؤنٹر سے وصول کرکے اسی دفتر کے دوسرے کاؤنٹر میں جمع کرادیں، یا اسی دفتر میں ایک ہی کاؤنٹر پر جس شخص سے وہ رقم وصول کریں، اسی کو واپس کردیں، کیا یہ طریقہ درست ہوگا؟

2- اگر ادارہ یہ صورت بنائے کہ تملیک کی غرض سے جس وقت دیگر اخراجات کی مد میں وظیفہ دیا جائے، مثلًا ہر طالب علم کو چار ہزار روپے دے کر واپس لیے جاتے ہیں، تو دفتر میں صرف چار ہزار روپے اضافی رکھے جائیں، اور ہر طالب علم کو وہی چار ہزار دے کر واپس لیتے رہیں، یوں تمام طلبہ سے تملیک بھی ہوجائے گی، اور بڑی رقم گھمانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، کیا اس طریقۂ تملیک میں شرعًا خرابی ہوگی؟ یہ صورت اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تملیک کے لیے دی جانےوالی رقم اگر ہر طالب علم کے لیے الگ الگ رکھی جائے تو خاصی بڑی رقم ہوتی ہے، اور اتنی بڑی رقم بینک یا تجوری سے نکالنا اور اسے گھما کر پھر دوبارہ گن کر اکاؤنٹ میں جمع کرانا مالیاتی اصولوں کے اعتبار سے مشکل بھی ہے، اور محلِ اشکال بھی۔

3- مذکورہ صورت میں اگر مطبخ اور دیگر اخراجات کے عنوان سے دیا گیا وظیفہ طلبہ سے بطورِ فیس واپس لینا یا ان کا وکیل بن کر اسے خرچ کرنا درست ہے تو اس رقم کو کن کن مصارف میں خرچ کیا جاسکتاہے؟

4- اگر اساتذہ کی تنخواہوں، مدرسے میں استعمال ہونے والی بجلی اور گیس کے بلوں یا دیگر مصارف میں رقوم کم پڑ رہی ہوں تو کیا مجموعی اخراجات کو مستحق طلبہ کی تعداد پر تقسیم کرکے ان کے جیب خرچ کے علاوہ دیگر اخراجات کا وظیفہ اتنی مقدار میں مقرر کیا جاسکتا ہے جس سے مستحق طلبہ کے کھانے کا انتظام بھی ہوجائے اور ادارے کے بقیہ مصارف بھی پورے ہوجائیں، مثلًا ایک طالب علم کے کھانے کے ماہانہ اخراجات تو دو ہزار روپے بن رہے ہیں، لیکن اسے چھ ہزار روپے وظیفہ جاری کرکے دو ہزار کھانے میں اور چار ہزار روپے تعمیرات، بلوں اور تنخواہوں کی ادائیگی وغیرہ میں لگالیے جائیں؟

5- اگر مذکورہ صورت میں تملیک کا معنی حقیقتًا پایا جائے، یعنی طالب علم کو بتادیا جائے کہ تم اس رقم کے مالک ہو، چاہو تو وظیفہ جمع کرو، چاہو تو نہ کرو، لیکن اس کے بعد اگر طالب علم وظیفہ جمع نہ کرانا چاہے تو اسے مجبور نہ کیا جائے، یعنی مطبخ کی مد میں تو فیس وصول نہ کی جائے، البتہ مطبخ کے اخراجات کے علاوہ دیگر اخراجات کی مد میں کیا اس (وظیفہ لینے والے) طالب علم سے بطورِ فیس جبری طور پر رقم وصول کی جاسکتی ہے؟ مثلاً چھ ہزار وظیفہ جاری کیا گیا، دو ہزار مطبخ کے اخراجات، چار ہزار دیگر مدات کے، اب طالب علم کھانے کا نظم مدرسے میں نہیں رکھنا چاہتا تو کیا ادارہ اسے چھ ہزار وظیفہ دے کر چار ہزار روپے تنخواہوں، بجلی کی سہولت تعمیرات وغیرہ کی مد میں زبردستی وصول کرسکتا ہے؟

6- اگر بوجہ ضرورت مذکورہ نظم بنایا گیا، یعنی مدرسے کے دیگر اخراجات کا مجموعی تخمینہ لگاکر صرف مستحق طلبہ کی مجموعی تعداد پر اسے تقسیم کردیا گیا اور مستحق طالب علم کو تو زکات وغیرہ سے وظیفہ جاری کرکے اس سے سہولیات اور تعلیمی فیس کے عنوان سے وصول کرلیا جائے، لیکن جو طلبہ مستحق نہیں ہیں، انہیں مفت تعلیم دی جائے اور ان سے کسی قسم کی فیس وصول نہ کی جائے، کیا یہ درست ہوگا؟ یعنی کیا اس سے مستحق طلبہ کو جاری کردہ وظائف میں شرعًا شبہ پید اہوگا؟ یا منتظمہ کو یہ اختیار ہوگا کہ بعض طلبہ سے تعلیم اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کی فیس وصول کرے اور بعض سے وصول نہ کرے؟ اگر سب سے فیس وصول کرنا ضروری ہے تو کیا یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ مستحق طلبہ کو تو زکات اور واجب صدقات سے وظائف جاری کیے جائیں اور غیر مستحق طلبہ کے ذمے آنے والی مجموعی فیس مدرسے میں جمع شدہ عطیات اور نفلی صدقات سے ادا کردی جائے؟

7- مستحق طلبہ کے علاوہ مدرسے کے کن کن افراد کو مطبخ سے کھانے وغیرہ کی سہولت دینا درست ہوگا؟ اور کن کن مدات سے یہ سہولت دی جاسکے گی؟ نیز مستحق طلبہ کو وظیفہ جاری کرنے کے بعد ان سے وصول کردہ اس وظیفے (فیس) سے مطبخ کے کون کون سے اخراجات پورے کرنا جائز ہوگا؟ 

جواب

1۔طلباء کو واجب صدقات کی رقم مالکانہ طور پردینے کے بعد  ان سے  تعلیمی اخراجات کےلئے جس طرح بھی رقم وصول کی جائے چاہے دفترمالیات میں ایک کاؤنٹر سے دے کر دوسرے کاؤنٹر پر ان سے دوبارہ وصول کیاجائے، یاجس کاؤنٹر سے ملا تھا اسی میں واپس جمع کرائے دونوں صورتوں میں تملیک ہوجائے گی۔

2۔جتنی زکوٰۃ کی رقم ہے سب کی تملیک ضروری ہے، صرف چارہزار روپے لےکر سب سے اس کی تملیک کرانا درست نہیں ۔

3۔طلباء سے بطور فیس(تعلیمی اخراجات) جو رقم وصول کی جائے اس رقم کومدرسہ کے تمام ضروریات مثلاً طلباء کا کھانا، اساتذہ کے تنخواہوں،بجلی کی بِل وغیرہ  میں استعمال کرنادرست ہے۔

4۔ہر طالب علم کا اتنی مقدار میں وظیفہ  مقرر کیاجاسکتاہے، کہ جس سے اس کے کھانے کے اخراجات کے علاوہ ادارہ کی دیگر ضروریات  وغیرہ بھی پوری ہوجائیں، حیلہ  میں مقصود یہی ہوتاہے کہ وظیفہ کی مد میں اتنی رقم دی جائے کہ جس سے طالب علم کے کھانے کے علاوہ  ادارے کی دیگر ضروریات  بھی پوری ہوجائیں۔

5۔طلباء کو وظیفہ جاری کرنے کے بعد ان کی تعلیمی اخراجات وغیرہ کے لئے  ان سے زبردستی فیس وصول کرنے کی گنجائش ہے،  تاہم اگرکوئی جمع نہ کراناچاہے، تو اسے مذکورہ سہولیات سے مستثنیٰ قرار دیاجائے۔

6۔مذکورہ دونوں صورتیں درست ہیں،یعنی جتنے اخراجات ہیں ،ان کو مستحق طلباءپر تقسیم کرکے ان  سے تملیک کرالیاجائے ،پھر  مہتمم  کواختیار ہوگا کہ مدرسہ کے جس ضرورت میں لگانا چاہے لگاسکتاہے۔

7۔مدرسہ کے فنڈ سے مطبخ میں جو کھانا پکایا جائے، اس کھانے کے متعلق   مدرسے کا جو قانون ہو، اس  قانون کے دائرے میں جتنے لوگ آتے ہیں مطبخ سے  ان کو کھانا دیاجاسکتاہے، مثلاً اگر مدرسہ کا ضابطہ ہے کہ غیر مستحق طلباء کو بھی مطبخ سے کھانا ملے گا، تو ان کوبھی کھلانا درست ہے، اگر اساتذہ کو دینے کا قانون ہو تو ان کو بھی دیاجاسکتاہے، تاہم مدرسہ سے متعلقہ  جو لوگ مدرسہ کے ضابطہ کے مطابق کھانے کے مستحق نہ ہو تو ان سے  مناسب قیمت  لےکر   ٹوکن سسٹم بنا لیاجائے،نیز مستحق  طلبہ کوزکوٰۃ کی رقم دینے کے بعد  ان سے تعلیمی اخراجات  کےلئے جورقم واپس وصول کی جائے، اس کو مطبخ کے تمام اخراجات میں استعمال کرنا درست ہے۔

فتح القدیرمیں ہے:

(ولا يبنى بها مسجد ولا يكفن بها ميت) لانعدام التمليك وهو الركن (ولا يقضى بها دين ميت)۔۔۔وکتب تحته۔۔ (قوله لانعدام التمليك وهو الركن) فإن الله تعالى سماها صدقة، وحقيقة الصدقة تمليك المال من الفقير۔

(باب من یجوز دفع الصدقۃ/ج:2/ص:267/ط:دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

ويشترط أن يكون ‌الصرف (‌تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره) (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن.وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم۔ (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي۔۔۔۔۔۔۔۔وقال الشامي (قوله: فيجوز لو بأمره) أي يجوز عن الزكاة على أنه تمليك منه والدائن يقبضه بحكم النيابة عنه ثم يصير قابضا لنفسه فتح۔

(باب مصرف الزكوة/ج:2/ص:334/ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

والواجب على الأئمة أن ‌يوصلوا ‌الحقوق إلى أربابها، ولا يحبسونها عنهم، ولا يحل للإمام، وأعوانه من هذه الأموال إلا ما يكفيهم وعائلتهم، ولا يجعلونها كنوزا، وما فضل من هذه الأموال قسم بين المسلمين فإن قصر الأئمة في ذلك فوباله عليهم۔

(البا ب الثامن فی صدقۃ الفطر/ج:1/ص:191/ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں