بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لئے وقف شدہ زمین کو فروخت کرکے دوسری زمین سے تبدیل کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درجِ ذیل مسئلے کے بارے میں:

میری اپنی ایک ذاتی جگہ تھی جس کو میں نے مدرسہ کے لیے وقف کیا تھا، اور مدرسہ میں ابھی بھی دین کا کام ہورہا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ اس مذکورہ جگہ پر کافی مشکلات ہیں، پانی کے مسائل(یعنی پانی وغیرہ اس علاقہ میں مشکل سے ملتا ہے)،اس کی سڑکیں بھی خراب ہیں، جگہ کی بھی قلت ہے، بجلی گیس کے مسائل، شور شرابہ وغیرہ ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس موجودہ جگہ کو فروخت کرکے اس رقم سے ایک دوسری وسیع اور بہتر جگہ پر ایک بڑا پلاٹ خرید کر تعمیر کرلوں، تاکہ طلبہ کرام آسانی اور سکون سے تعلیم حاصل کرسکیں اور یہ جگہ رجسٹرڈ ہے، کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟

جواب

از رُوئے شرع موقوفہ زمین کو وقف کرنے کے بعد تبدیل کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ موقوفہ زمین واقف (وقف کرنے والے) کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، البتہ اگر موقوفہ زمین ایسی ہے کہ وہ بالکل قابلِ انتفاع نہیں ہے، تو اس موقوفہ زمین کو کسی دوسری قابلِ انتفاع زمین سے تبدیل کرنا جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جس زمین کو مدرسہ کے لیے وقف کیاگیا ہےوہ زمین مدرسہ ہی کے لیے رہےگی، اسے فروخت کرکے اس کی رقم سے دوسری جگہ پلاٹ خریدنا جائز نہیں، کیوں کہ  ذکر کردہ وجوہات ایسی  نہیں ہیں جن کی بناء پر اس زمین کو تبدیل کرنایعنی اس موقوفہ زمین کو  فروخت کرکے اس کے بدلے کوئی اور زمین خریدنا جائز ہو۔

فتاویٰ شامی (الدرّ المختار وردّالمحتار) میں ہے:

"(و) جاز (شرط الاستبدال به) أرضا أخرى حينئذ (أو) شرط (بيعه ويشتري بثمنه أرضا أخرى إذا شاء فإذا فعل صارت الثانية كالأولى في شرائطها وإن لم يذكرها ثم لا يستبدلها) بثالثة لأنه حكم ثبت بالشرط والشرط وجد في الأولى لا الثانية (وأما) الاستبدال ولو للمساكين آل (بدون الشرط فلا يملكه إلا القاضي) در

وشرط في البحر خروجه على الانتفاع بالكلية وكون البدل عقارا والمستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل، وفي النهر أن المستبدل قاضي الجنة فالنفس به مطمئنة فلا يخشى ضياعه

 (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز.

وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث، إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها، ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال قال: ولا يمكن قياسها على الأرض فإن الأرض إذا ضعفت لا يرغب غالبا في استئجارها بل في شرائها أما الدار فيرغب في استئجارها مدة طويلة لأجل تعميرها للسكنى على أن باب القياس مسدود في زماننا وإنما للعلماء النقل من الكتب المعتمدة كما صرحوا به".

(قوله: وشرط في البحر إلخ) عبارته وقد اختلف كلام قاضي خان في موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف، حيث رأى المصلحة فيه وفي موضع منع منه: لو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه بلا شرط يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية، وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش، وشرط الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل لئلا يحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا اهـ ويجب أن يزاد آخر في زماننا: وهو أن يستبدل بعقار لا بدراهم ودنانير فإنا قد شاهدنا النظار يأكلونها، وقل أن يشتري بها بدلا ولم نر أحدا من القضاة فتش على ذلك مع كثرة الاستبدال في زماننا. اهـ".

(کتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج:4، ص:386، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں