ایک آدمی نے اپنی زمین مدرسے کے لیے وقف کی تھی اور اس بات پر بہت سارے لوگ گواہ ہیں کہ وہ جگہ مدرسے کے لیے وقف کی گئی اور کچھ دن باضابطہ اس میں مدرسہ چلتا رہا اور اس جگہ مدرسہ تعمیر کرنے کے لیے چندہ بھی کیا گیا اور چندہ بھی مدرسہ کے نام پر ہی جمع کیا گیا تھا کچھ دنوں تک وہاں مدرسے کا سلسلہ چلتا رہا پھر مسجد کمیٹی نے مدرسہ بند کر کے مدرسے کے کمروں کو کرائے پر دے دیا اور ان کرائے کے پیسوں کو مسجد کے اخراجات پر خرچ کرتے ہیں، حالانکہ جگہ مدرسے کے لیے وقف کی گئی تھی تو کیا مدرسے کی وقف کی جگہ اور اس سے حاصل ہونے والے پیسوں کو مسجد میں استعمال کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جگہ چوں کہ مدرسہ ہی کے لیے وقف کی گئی ہے تو ان کمروں کو کرایہ پر دےکر اس کی رقم کو مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، مسجد انتظامیہ پر لازم ہے کہ مدرسہ کی اصل حیثیت کو برقرار رکھیں، مدرسہ کو آباد کریں، انہیں کرایہ پر دینا شرعًا جائز نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
" شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."
(فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية."
(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية".
( کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریف الوقف و رکنہ ،2 / 350،ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310101569
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن