بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسے کے منتظم کی تنخواہ میں اضافے کا حکم


سوال

میں ایک دینی ادارے کا منتظم  اعلی ہوں، جس میں مسجد بھی ہے ،اور مسجد کی امامت و خطابت کے فرائض بھی  میں ہی انجام دیتا ہوں،کل 11 اساتذہ ہیں، ان کی تنخواہیں عطیات اور  اسکول کے  بچوں سے لی گئی فیس  سے ادا کی جاتی ہے، مدرسہ میں صبح  اسکول کی تعلیم دی جاتی  ہے،اور ا سکول کی تمام ذمہ داریاں میں سنبھالتا ہوں،باقی اساتذہ مدرسے  کے اوقات کے علاوہ  اوقات  میں  چھوٹا موٹا کاروبار کر لیتے ہیں، سات سال تک میں نے بھی کاروبار کیا ،لیکن   کاروبار کے ہوتے ہوئے  ادارے کی  ذمہ داریوں میں کا فی خلل آنے لگا تھا ، جس کی وجہ سے اساتذہ کے مشورے سے میں نے  کاروبار ختم کر لیا،  اور  ادارے کی ذمہ داریوں کو  پوری توجہ  دینے کے لیے  اپنے آپ کو وقف کر لیا، کیوں کہ کاروبار کے ساتھ ساتھ  مدرسہ کی  ذمہ داریوں   پر توجہ دینا بہت مشکل ہو گیا تھا، لیکن اب تنخواہ  اتنی ہے ، کہ جس  سے پورا مہینہ  ضروریات  کو  پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے، سوال یہ ہے کہ میں بحیثیتِ مہتمم  باقی اساتذہ کے تنخواہوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ  رقم بطور ِتنخواہ کے  لے سکتا ہوں، مثلاً ناظم کی تنخواہ 22 ہزار ہے، تو اس مہنگائی کے دور میں میری تنخواہ شرعا  ً کیا ہونی چاہیے؟  تاکہ عند اللہ میں  گناہ گار نہ ہوں، کیوں کہ بعض اساتذہ کی تنخواہ 15 ہزار ہے، برائے کرم  شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

 صورت مسئولہ میں مہتمم کے لیے جائز ہے، کہ وہ  عام  مدرسین یا  دفتری  دیگر عملہ سے زائد تنخواہ لے، اس زیادتی  کا تعین مدرسہ /اسکول  کی مجلس شوری ٰ یا  سرکردہ   افراد  کی مشاورت کے بعد کیا جا سکتا ہے۔

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"اعلم أن الإجارة عقد على المنفعة بعوض هو مال والعقد على المنافع شرعا نوعان أحدهما: بغير عوض كالعارية والوصية بالخدمة والآخر: بعوض وهو الإجارة وجواز هذا العقد عرف بالكتاب والسنة)."

(المبسو ط للسرخسي، کتاب الإجارات ج:15  ص:74 ط:دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - إستحسنوا الإستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الإمتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى."

(الفتاوي الشامي، کتاب الإجارات، باب الإجارة الفاسدة، مطلب الإستئجار علي الطاعات،  ج:6 ص:55  ط:سعید)

مجمع الأنھر   فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(ويفتى اليوم بالجواز) أي بجواز أخذ الأجرة (على الإمامة وتعليم القرآن، والفقه) ، والأذان كما في عامة المعتبرات، وهذا على مذهب المتأخرين من مشايخ بلخي إستحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم، وكانت لهم عطيات من بيت المال وافتقاد من المتعلمين في مجازاة الإحسان بالإحسان من غير شرط مروءة يعينونهم على معاشهم ومعادهم، وكانوا يفتون بوجوب التعليم خوفا من ذهاب القرآن وتحريضا على التعليم حتى تنهضوا لإقامة الواجب فيكثر حفاظ القرآن، وأما اليوم فذهب ذلك كله وانقطعت العطيات من بيت المال بسبب إستيلاء الظلمة واشتغل الحفاظ بمعاشهم وقلما يعلمون الحسبة ولا يتفرغون له أيضا، فإن حاجتهم يمنعهم من ذلك فلو لم يفتح باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بجوازه لذلك ورأوه حسنا، وقالوا: الأحكام قد تختلف باختلاف الزمان."

(مجمع الأنهر في شر ح  ملتقي الأبحر، كتاب الإجارة،باب  الإجارة الفاسدة، ج:2 ص:384 ط: دار الإحيا التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں