ایک شخص مدرسہ قائم کرتاہے،جس میں قرآن وحدیث اور علومِ اسلامیہ پڑھائے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہےکہ آیا مہتمم صاحب کی اولاد میں مدرسہ کی زمین یاعمارت بطورِ وراثت تقسیم کی جاسکتی ہےیانہیں؟
وضاحت: زمین وقف شدہ تھی۔
واضح رہےکہ وقف جب درست اور صحیح ہوجائےتوموقوفہ چیز قیامت تک کے لیے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکوہ زمین موقوفہ(وقف شدہ)تھی تو مہتمم صاحب کے اولاد کے لیے شرعاً جائزنہیں کہ وہ مدرسہ کے لیے وقف شدہ زمین یاعمارت وراثت میں تقسیم کردے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و عندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، و لايباع و لايوهب و لايورث، كذا في الهداية. و في العيون و اليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."
(كتاب الوقف ج:2،ص:350،ط:رشيدية)
فتح القدیرمیں ہے:
’"و عندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى؛ فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، و لايباع و لايوهب و لايورث."
( کتاب الوقف ج:6،ص:203 ط: دار الفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144402101198
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن