بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں مستحق زکوۃ طلبہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے حیلہ تملیکِ زکاۃ


سوال

 ایک شخص کا مدرسہ ہے، مدرسہ میں رہائشی طلباء نہیں ہیں، بعض اوقات لوگوں سے زکوة کے پیسے لےکر ایک اپنے غریب دوست سے حیلہ کراتا ہے، پھر وہ رقم مدرسہ کےاخراجات میں لگاتا ہے، تو کیا اس طرح کرنا ان کے لۓ جائز ہے؟

جواب

مدرسہ کےاخراجات کے لیے بلا ضرورت حیلہ تملیک کرنا درست نہیں ہے، اگر مدرسہ میں مستحقین زکاۃ طلبہ موجود نہیں ہیں تو مدرسہ کی انتظامیہ کو چاہیے کہ زکاۃ اور واجب صدقات کے علاوہ دیگر نفلی صدقات وعطیات سے مدرسہ کے اخراجات پورے کئے جائیں۔  اگر مدرسہ کے اخراجات نفلی صدقدات وعطیات سے پورے نہ ہوتے ہوںتو شدید ضرورت میں تملیک کی حقیقت اورشرائط ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ کرنے کی گنجائش ہوگی ، یعنی فقیر کو زکاۃ کی رقم دیتے وقت مدرسہ کی ضروریات تو بتادی جائیں ، لیکن اسے زکاۃ کی رقم مالک بنا کر دی جائے اور دینے والا اور لینے والا یہ سمجھتا ہو کہ فقیر مالک ومختار ہے، چاہے تو اسے مدرسہ کے اخراجات میںصرف کرے اور چاہے تو خود استعمال کرے اور پھر وہ فقیر دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے مدرسہ کے مصارف میں دے دے تو اس کی گنجائش ہوگی-

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 271):

"وحيلة التكفين بها التصدق على فقير ثم هو يكفن فيكون الثواب لهماوكذافي تعمير المسجد، وتمامه في حيل الأشباه.

(قوله: ثم هو) أي الفقير يكفن والظاهر أن له أن يخالف أمره لأنه مقتضى صحة التملك كما سيأتي في باب المصرف بحثا (قوله: فيكون الثواب لهما) أي ثواب الزكاة للمزكي، وثواب التكفين للفقير. وقد يقال: إن ثواب التكفين يثبت للمزكي أيضا، لأن الدال على الخير كفاعله، وإن اختلف الثواب كما وكيفا ط."

في مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 222):

"(ولا تدفع) الزكاة (لبناء مسجد) ؛ لأن التمليك شرط فيها ولم يوجد وكذا بناء القناطير وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا يتملك فيه، وإن أريد الصرف إلى هذه الوجوه صرف إلى فقير ثم يأمر بالصرف إليها فيثاب المزكي والفقير."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں