ایک مسجد سے منسلک مدرسہ ہے، اس میں علاقہ کے بچے پڑھتے ہیں، مدرسہ کے اپنے بہت اخراجات ہیں، جب کہ زکوٰۃ فطرہ کے علاوہ کوئی اور آمدنی نہیں ہے، کیا مدرسہ کے لیے زکوٰۃ کے پیسے لیے جاسکتے ہیں؟ دوسری صورت میں اگر حیلہ کرلیا جائے تو کیا ممکن ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ بالغ مستحق ہوں، یا مستحق والدین کے نابالغ بچہ ہوں تو ایسے طلبہ کو زکات دی جا سکتی ہے، اسی طرح سے مدرسہ کے ذمہ دار کو اپنی زکات تقسیم کرنے کا وکیل بھی بنایا جا سکتا ہے، البتہ مدرسہ کی تعمیرات، اساتذہ کی تنخواہ، گیس بجلی وغیرہ کے بل زکات کی رقم سے ادا نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم مستحق طلبہ کو زکات کی رقم کا باقاعدہ مالک بنانے کے بعد ان سے تعلیمی و دیگر اخراجات کی مد میں فیس کے طور پر وصول کرکے اساتذہ کی تنخواہ، گیس، بجلی وغیرہ کے بل اور دیگر اخرجات ادا کیے جا سکتے ہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَلَايَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَايُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَلَايُشْتَرَى بِهَا عَبْدٌ يُعْتَقُ، وَ لَايَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ كَذَا فِي الْكَافِي."
( كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
نوٹ: ادارہ کی جانب سے سوال کا جواب دیا گیا ہے، مذکورہ ادار ے کے لیے سفارش یا اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
فتوی نمبر : 144209200595
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن