بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے ملازم کی تنخواہ کاٹنے کا حکم


سوال

میں ایک مدرسہ میں کل وقتی شعبہ کتب میں مدرس ہوں ، مدرسہ جب بلائے حاضر ہوجاتاہوں  ، ہمارے مدرسہ میں امتحانات کے موقعہ پر جامعہ کی طرف سے دس دن عام تعطیلات تھی، جس میں بندہ گاؤں گیا تھا ، میں  نے دس دنو ں پر مزید ایک ہفتہ رخصت لینے کے لیے درخواست    بھی بھیجی جو کہ منظور نہ ہوئی ،چنانچہ  میں نے مزید ایک ہفتہ چھٹی کرلی۔

گاؤں سے واپسی پر  جامعہ کے مدیر اعلی نے میری تنخواہ میں سے کل   17 دنو ں کی تنخواہ کاٹ لی ، جس میں سے دس دنوں کی عام تعطیلات کو بھی شمار کیا جب کہ وہ تو عمومی چھٹی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ ہر ادارہ میں رمضان ،عیدین وغیرہ کی چھٹیوں کے علاوہ کچھ اور اتفاقی چھٹیاں بھی ہوتی ہیں ،اتنے دنوں کی چھٹی کرنے سے تنخواہ نہیں کٹے گی ،اگر اتفاقی چھٹیاں مقرر نہیں ہیں، تو اس میں دیگر اداروں کے عرف کا اعتبار ہوگا،جتنی غیر حاضریاں عرفاً معفو سمجھی جاتی ہیں ملازم ان ایام کی اجرت کا مستحق ہوگا، اس سے مزید چھٹی کرنے کے لئے انتظامیہ کو تحریری یا زبانی طور پر اطلاع دینا ضروری ہے ،بغیر اطلاع کے چھٹی کرنے پر ان ایام کی تنخواہ کا حقدار نہیں ہوگا یعنی جتنے دن حاضر ہوگا تنخواہ کا مستحق ہوگا ورنہ نہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سائل جس جامعہ میں مدرس ہے ، اس کے ضابطہ کے مطابق اتفاقی چھٹیوں میں اگر یہ سات دنوں کی چھٹیاں آجاتی ہیں تو مدیر کےلیے ان سات دنوں کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں اور اگر ایسا کوئی ضابطہ نہیں تو قریبی مدارس کے نظم کےمطابق حکم لگایا جائے گا اور بقیہ دس دنوں کی عام تعطیلات مدرس کا حق تھا جس میں بقیہ دیگر عملے کی طرح سائل بھی حاضر ہونے کا پابند نہیں تھا لہذا ان دس ایام  کی تنخواہ سائل کا حق ہے اور مدیر کے لیے ان ایام کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

                اگر مدرسہ کا کوئی آئین ہے یا ملازمت کے وقت کوئی شرط ٹھہری ہے، یعنی کوئی اصول طے کیے ہیں  تو اس کے مطابق عمل ہوگا اور اگر کوئی دستور نہیں تو استحقاق رخصت کے علاوہ ایام ِغیرحاضری کی تنخواہ دینا تبرع ہوگا لازم نہیں ۔ (ص:352)

 وفیہ ایضاً:

سوال:

اگر مدرس سخت بیمار ہوگیا اور رخصتیں (جو سال میں مقرر ہوتی ہے) بھی ختم ہیں اور بیماری  کی وجہ سے درخواست بھی نہیں ارسال کی،اور مہتمم نے تنخواہ کاٹ لی ،یہ جائز ہے یانہ؟

جواب:

اگر بیماری کی اطلاع مدرس نے  مہتمم کو دے دی ہو ،درخواست دی ہو یا  زبانی  اطلاع دی ،توبیماری     کے دنو  ں کی تنخواہ کاٹنا اسے جائز نہیں ، اور اگر نہ درخواست دی ہو اور نہ زبانی اطلاع  تو تنخواہ کاٹنا جائز ہے۔

 

                                (فتاویٰ مفتی محمود: اجارہ کا بیان:ج،9/ص373)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

            "وھل یأخذ (أي المدرس) أیام البطالۃ کعید و رمضان لم ارہ وینبغی إلحاقه ببطالة القاضي والأصح انه یأخذ لأنھا للاستراحة اشباہ من قاعدۃ العادۃ محکمة وسیجیٔ ما لوغاب فیلحفظ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه۔"

 

(کتاب الوقف،مطلب فی استحقاق القاضی والمدرس الوظیفۃ:ج4/ص،372:ط،سعید)

الدر المختار میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا"

(کتاب الاجارۃ ،باب ضمان الاجیر،ج:6،ص:72،ط:سعید)

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا أسود بن عامر، قال: أخبرنا أبو بكر، عن عاصم، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌اقتطع ‌مال امرئ مسلم بغير حق، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان "

ترجمہ:"جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال  روک لیا وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"

(ج:7،ص:59،رقم :3946ط: مؤسسة الرسالة)

النتف فی الفتاوی للسغدی میں ہے:

"فان وقعت على عمل معلوم فلاتجب الأجرة إلا بإتمام العمل إذا كان العمل مما لايصلح أوله إلا بآخره وإن كان يصلح أوله دون آخره فتجب الأجرة بمقدار ما عمل.
وإذا وقعت على وقت معلوم فتجب الأجرة بمضي الوقت إن هو استعمله أو لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الأجرة"

النتف في الفتاوى للسغدي (2 / 559)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں