میں ایک دینی مدرسہ میں مدرس ہوں اور اکثر اوقات مدرسہ میں گزارتا ہوں مدرسے کا لنگر لوگوں کی زکات پر چلتا ہے اور اور یہ زکات بھی طلباءکی نام آتي ہے، تو کیا مدرس، و استاد کو یہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟
اس میں فقیر او غنی مدرس میں فرق ہے؟
بہتر تھا کہ سائل اپنے مدرسے کے مطبخ کے حوالے سے مکمل طریقِ کار اور مالیات کا ضابطہ معلوم کرکے پھر وضاحت کے ساتھ سوال کرتا؛ کیوں کہ اس حوالے سے مدارس کا معمول مختلف نوعیت کا ہوسکتا ہے۔
تاہم اُصولی جواب یہ ہے کہ ادائیگی زکات کے لیے مستحق افراد کو اموالِ زکات کا مالک بنانا شرعًا ضروری ہوتا ہے، اگر مستحقِ زکات کو مالک بناکر مالِ زکات نہ دیا جائے تو اس سے زکات ادا نہیں ہوتی، پس زکات کی رقم سےتیار کردہ کھانا اگر طلبہ کو مطبخ میں کھلایا جاتا ہو تو اس سے زکات ادا نہ ہوگی، البتہ اگر کھانا طلبہ کو ان کے برتن میں دے دیا جاتا ہے تو اس صورت میں زکات ادا ہوجائے گی۔
صورتِ مسئولہ میں اگر زکات کی رقم سے ہی کھانا بنایا جاتا ہو، تو غیر مستحق اساتذہ و دیگر عملہ کے لیے مطبخ سے کھانا لے کر کھانا جائز نہ ہوگا، البتہ اگر زکات کی رقم مستحق طلبہ کے درمیان بطورِ وظیفہ مالکانہ حقوق کے ساتھ تقسیم کردی جاتی ہو، اور تقسیم کے بعد بطورِ فیس کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات کی مد میں مدرسہ انتظامیہ طلبہ سے وصول کرلیتی ہو، جس کے بعد اس رقم سے کھانا تیار کیا جاتا ہو، تو ایسا کھانا مدرسے کے ضابطے کے مطابق غیر مستحق طلبہ و معلمین اور دیگر عملہ بھی کھا سکتا ہے، البتہ اس صورت میں بھی غیر مستحق اساتذہ و طلبہ کے لیے مطبخ سے خرید کر کھانا اولی ہوگا۔
دیکھئے:
اساتذہ اور غیر مستحق طلباء کا مدرسہ کے مطبخ سے کھانا کھانا
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة
(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة."
( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ٢ / ٣٤٤، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200136
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن