بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی زائد اشیاء کا حکم


سوال

ایک  مدرسے  کی زائد اشیاء  جیسے   قالین وغیرہ کسی  دوسرے  مدرسے کو دینا جائز ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر اس کا صحیح مصرف کیا  ہے ؟ 

جواب

مدرسہ کی مملوکہ اشیاء اگر شکستہ یا پرانی ہوکر ناقابلِ  انتفاع ہوجائیں یا مدرسہ کی موجودہ یا مستقبل کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو انہیں فروخت کرکے اسی مدرسہ کے مصارف میں استعمال کیا جائے گا اور اگر ان اشیاء کا فروخت ہونا ممکن نہ ہو اور ان اشیاء کے ضائع ہوجانے کا قوی امکان ہو تو اسے قریب کے کسی مدرسے میں دے دیا جائے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (4 / 359):

"(قوله: ومثله حشيش المسجد الخ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم، قال الزيلعي: وعلى هذا حصير المسجد و حشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد، و عند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، و على هذا الخلاف الرباط و البئر إذا لم ينتفع بهما ا هـ و صرح في الخانية بأن الفتوى على قول محمد، قال في البحر: و به علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد، و على قول أبي يوسف في تأبيد المسجد ا هـ و المراد بآلات المسجد نحو القنديل و الحصير بخلاف أنقاضه لما قدمنا عنه قريباً من أن الفتوى على أن المسجد لايعود ميراثاً ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر".

   فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144211200453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں