ہمارے ہاں ایک قاری صاحب گھر میں بچوں اور عورتوں کو قرآن مجید پڑھاتے ہیں اور اس کی فیس بھی لیتے ہیں۔ اب یہ صاحب ایک مدرسے کی تعمیر کے سلسلے میں امداد کی اپیل کررہے ہیں۔ جہاں حفظ بھی کروایا جائے گا۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا اسے خیرات ، صدقات وغیرہ کی مد میں پیسے دیے جا سکتے ہیں جب کہ تعلیم پیسوں کے عوض دی جائے گیم، نہ تو اس کی کوئی کمیٹی بنی ہوئی ہے اور نہ ہی یہ کوئی تنظیم چلائے گی، بلکہ خالصتاً کمرشل بنیادوں پر ادارہ قائم ہو گا، جیسے الھدی اور اقراء روضۃ الاطفال وغیرہ۔
1- جو مدرسہ ابھی تک قائم نہ ہوا ہو، اس کی تعمیرات کی ترغیب اور تصدیق کے لیے شرعاً اور قانوناً بہت سے تقاضے پورے کرنا ضروری ہوتاہے، معائنہ و مشاہدہ اور ضروری تفصیلات جانے بغیر کسی کے لیے متعینہ طور پر تصدیق کرنا مشکل ہے، آپ کسی قریبی مستند عالم یا مفتی سے تفصیلات بیان کرکے اپنا اطمینان کرلیں کہ مذکورہ ادارے میں تعاون کس حد تک اور کن مدات میں درست ہے، پھر اس کے مطابق عمل کرلیجیے۔
2- اگر حقیقت میں وہ ادارہ بنارہے ہیں تو تعمیرات میں زکات اور صدقاتِ واجبہ (فطرہ، کفارہ، نذر ) کی رقم دینا درست نہیں ہے، البتہ ان کے علاوہ نفلی صدقات، خیرات اور عطیات سے تعاون کیا جاسکتاہے، اگرچہ تعمیرات کے بعد وہ ادارے کا نظم چلانے اور اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے بچوں سے فیس وصول کریں۔
3- آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ مذکورہ قاری صاحب عورتوں کو قرآن پڑھاتے ہیں، اگر بالغہ یا قریب البلوغ عورتوں اور لڑکیوں کو وہ آمنے سامنے قرآن پڑھاتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے۔
اس حوالے سے مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
ٹیوشن پڑھانا
4- آپ نے سوال کے آخر میں لکھا ہے کہ "خالصتاً کمرشل بنیادوں پر ادارہ قائم ہوگا، جیسے الہدی اور اقراء روضۃ الاطفال"۔ اس بابت عرض ہے کہ دوسروں کی نیت اور مقاصد کیا ہیں؟ یہ ہم طے نہیں کرسکتے، یہ تو ادارہ بنانے والے طے کرتے ہیں کہ ان کا مقصد خالص کمرشل ہے یا دین کی ترویج ہے یا کچھ اور ہے، اقراء روضۃ الاطفال کے حوالے سے ہمیں آگاہی ہے کہ اب تک اس کی بنیاد کمرشل نہیں ہے، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ اگر اسے اطمینان ہے تو تعاون کرے، اطمینان نہیں ہے تو تعاون نہ کرے، باقی ان کی نیت فیس لینے سے کیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201047
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن