بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی رقم لے کر مضاربت پر کام کرنا


سوال

مدرسہ کے مہتمم نے مدرسہ کا مال کسی کو بطورِ مضاربت دیا تھا، اس کا آدھا نفع مدرسہ کو مل رہا تھا، اب مہتمم چاہتا ہے کہ اس مدرسہ کی رقم سے میں خود مضاربت کروں اور اس کا آدھا نفع مجھے مل جائے، تو کیا میرے لیے جائز ہو گا؟

وضاحت:یہ وہ  رقم ہے جو لوگوں سے چندے کے عنوان سے جمع کی گئی ہے، جس میں زکوۃ کی رقم بھی شامل ہے۔

جواب

مدرسہ کے لیے جو رقم چندے کے عنوان سے ادارے کے اخراجات کے لیے دی جاتی ہے اس رقم کو مدرسہ کے مصارف کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں، اس رقم کو صرف مدرسہ کے مصارف میں ہی لگانا ضروری ہوتا ہے،  لہذا مدرسہ کی رقم کو تجارت میں لگانا ناجائز ہے،نیز مدرسہ کی رقم سے خود اپنے لئے تجارت کرنا / مضاربت کرنا بھی کسی طور پر شرعا جائز نہیں بلکہ یہ صریح خیانت ہوگی۔

اب مدرسہ کی جو رقم مضاربت پر دی ہوئی ہے وہ رقم  مدرسہ کے فنڈ میں جمع کروائی جائے، اس رقم کو بطورِ مضاربت استعمال کرنا درست نہیں۔

نیز اس چندے کی رقم میں چوں کہ زکوۃ کی رقم بھی شامل ہے اور زکوۃ کی رقم کا حکم یہ ہے کہ کسی مستحق کو مالک بنا کر دے دی جائے، اس لیے خصوصاً زکوۃ کی رقم کو مضاربت پر دینا کسی طرح جائز نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي القنية ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه ‌منفعة ‌ظاهرة للمسجد. اهـ."

(کتاب الوقف، تصرفات الناظر فی الوقف، جلد:5، صفحہ: 259، طبع: دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں