بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لیےدی گئی زکات کی رقم سے اسی مدرسہ کے لیے جگہ خریدنے کا حکم


سوال

میں جامع مسجد ۔۔۔ کا خطیب ومدرسہ  ۔۔۔ کا خادم ہوں ۔الحمد للہ مدرسہ ہذا میں  اقامتی  طلبہ بھی ہیں، جن کا ماہانہ خرچ اور  اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں کے ساتھ ٹوٹل خرچ تقریباً(260000)دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے، جب کہ  کچھ طلبہ غیر اقامتی ہیں ،جن میں حفظ و ناظرہ کے  طلبہ بھی ہیں ،اقامتی طلبہ میں33  طلبہ بالغ ہیں۔

 عرض یہ ہے کہ اب تک ہماری کلاسیں مسجد کے ہال میں لگتی رہیں، جب کہ ہمیں درس گاہوں کی اشد ضرورت تھی ، مسجد سے ملحقہ ایک گھر فروخت ہورہا تھا، جس کے بارے میں ایک قادیانی کے خریدنے کی خبر معلوم ہوئی، تو بندہ ناچیز کوا س پر تشویش لاحق ہوئی، ہمارے مدرسے کی ضرورت اور اس تشویش کے پیشِ نظر ہمیں انتہائی جلدی فیصلہ کرنا پڑا ، جس پر رقم کی اد ائیگی کے حوالے سے کچھ مشقت کا سامنا ہورہاہے ، اللہ تعالی مدد ونصرت فرمائیں ۔

عرض یہ ہے کہ (6000000)ساٹھ لاکھ روپے کی قیمت طے پائی،جس میں نصف رقم دوست واحباب سے بطورِ قرض لے کر ادا کردی گئی جو کہ مدرسہ کے چندہ سے ادا کرنا مشکل ہے ، اس عنوان  پر کوشش کی گئی، جس میں زکوٰۃ کی رقم کا معاملہ پیچیدہ ہوگیا،اموالِ زکوٰۃ سے بلڈنگ کی قیمت ادا کرنا کیسا ہے؟ یا زکوٰۃ کی رقم سے بطورِ قر ض رقم ادا کردی جائے ،بعد ازاں اپنی ذاتی آمدن جو کہ  میرے پنسار سٹور سے ہے، سے ادا کرکے ا س قرض کو اس صورت میں ادا کردیا جائے گا،ماہانہ کچھ رقم  (جو خادم مدرسہ کی ذاتی  آمدن جس کا چندہ سے تعلق نہ ہو)طلبہ کے طعام کی مد میں خرچ کردی جائے گی، جس سے وہ قرض ادا کردیا جائےگا،کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مدسہ کے مہتمم کا مسجد سے متصل گھر خرید نے کے لیےمدرسہ کے لیے دی گئی  زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنا یا زکوٰۃ کی رقم بطورِ قرض لے کر اس رقم سے گھر خریدنا شرعاً ناجائز ہے ، البتہ مہتمم کو چاہیے کہ گھر کی خریداری کے لیے کسی صاحبِ ثروت شخص سے بطورِ قرض رقم لے لے اور اسے بعد میں ادئیگی کرلے یا عطیات کے پیسوں سے اس کی ادائیگی کرلے اور اگر کوئی صورت ممکن نہ ہو  اور مدرسہ کےلیے جگہ کی بھی ضرورت ہو تو مذکورہ گھر کوئی غریب شخص  خرید لے اور بعد میں جب وہ غریب شخص (  قرض دار)مستحقِ زکوٰۃ ہوجائےتو زکوٰۃ کی رقم سے قرض خواہ کو  ادائیگی کردے  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)."

و في الرد:

"(قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه زيلعي."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر،ج:۲،ص:۳۴۴،ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وبناء مسجد) أي لا يجوز أن يبنى بالزكاة المسجد لأن ‌التمليك ‌شرط فيها ولم يوجد وكذا لا يبنى بها القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف ،ج:۱،ص:۳۰۰،ط:دارالکتا ب الإسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(‌والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة۔"

(کتاب الحیل،الفصل الثالث فی مسائل الزکٰوۃ،ج:۶،ص:۳۹۲،ط:رشیدیہ)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144304101013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں