بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی مسجد کے اخراجات مدرسہ کے فنڈ سے ادا کرنا


سوال

 1- بعض ادارے ایسے ہوتے ہیں جہاں مدرسے کے زیرِ انتظام مسجد بھی ہے، ویسے تو مسجد اور مدرسہ وقف کی دو مختلف جہات ہیں، لیکن بہت سے مدارس میں اصل مدرسہ قائم ہوتاہے، پھر ضرورت کی بنا پر اسی کی زمین پر مسجد بھی قائم کردی جاتی ہے، اور بعد ازاں وہ مسجد اہلِ محلہ کے لیے بھی کھول دی جاتی ہے، ایسی مسجد کے انتظامات مدرسے کے فنڈ سے کرنے کا کیا حکم ہوگا؟ جب کہ مسجد کے لیے باقاعدہ رسید بک یا مستقل فنڈ نہ ہو،اور مسجد، اہلِ مدرسہ کے ہی زیرِ استعمال و انتظام ہو، یعنی انتظامیہ ایک ہی ہو؟

2- اس صورت میں اگر مدرسے کے فنڈ سے انتظامیہ نے مسجد کی اشیاء خریدیں، اور مسجد میں ان کی ضرورت باقی نہ رہی، لیکن مدرسے میں وہ اشیاء کام میں آسکتی ہوں تو کیا انہیں مدرسے میں بلامعاوضہ استعمال کیا جاسکتاہے؟ یا مسجد اور مدرسے کے حسابات الگ رکھنا ضروری ہوگا؟ اور ایسی اشیاء بالمعاوضہ مدرسے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہوگی؟

3- اگر مدرسے میں موجود مسجد کی مستقل کمیٹی ہو، اور مستقل فنڈ مقرر ہو، لیکن بسا اوقات وہ مسجد کی ضروریات کے لیے کفایت نہ کرے، تو مدرسے سے قرض لینے کے کیا احکامات ہوں گے؟ کیا یہ دیکھتے ہوئے کہ مسجد تو درحقیقت مدرسے کی ہی ضرورت ہے اور اس کے بنانے والے اہلِ مدرسہ ہی ہیں، گو اب الگ سے فنڈ اور کمیٹی بنادی گئی ہے، مدرسے کے فنڈ سے وہاں کچھ صرف کرنا جائز ہوگا؟ یا بطورِ قرض ہی دیا جاسکتاہے؟ مثلًا: اگر مدرسے میں موجود مسجد کی جگہ طلبہ یا اہلِ محلہ کے لیے ناکافی ہوجائے اورمسجد کے لیے مستقل جگہ خریدی جائے تو کیا یہ مدرسے کے فنڈ سے خریدی جاسکتی ہے؟ یا مثلًا: مدرسہ کوئی نئی شاخ کھولے اور وہاں وسیع و عریض مسجد بنائے، اور مدرسے سے تعاون کرنے والے حضرات مسجد یا مدرسہ کی مد متعین کیے بغیر چندہ دیں (لیکن وسیع جامع مسجد کا منصوبہ ان کے سامنے ہو، اور یہ ترغیب کا باعث بھی ہو، اور چندہ دینے والے انتظامیہ مدرسہ کی صواب دید پر خرچ کرنے کی نیت سے دیں)، تو کیا اس چندے کو یا اس سے خریدے گئے بقیہ سامان کو مدرسے کی دیگر ضروریات میں صرف کرنا جائز ہوگا؟ 

جواب

1:اگرمسجد مدرسہ کے تابع ہے اورمسجد ومدرسہ  کی انتظامیہ بھی ایک ہی ہے اورمسجد کا مستقل فنڈبھی نہیں ہےاور مسجد اصل  میں طلباء کےلئے بنائی گئی ہے، تو یہ مدرسہ کی ضروریات کے دائرہ میں داخل ہے، اس لئے مسجد کے اخراجات مثلاً بجلی کا بل امام کی تنخواہ وغیرہ مدرسہ کے فنڈ سے اداکرنا جائز ہے، البتہ اگر چندہ دینے والوں نے صرف مدرسہ کے لیے رقم یا کو ئی چیز  دی ہو اور اس کی صراحت بھی کردی ہو، تو ایسی صورت میں مدرسہ کی رقم وغیرہ کو مسجد میں لگانا جائز نہیں ہوگا، اگر چہ دونوں کی انتظامیہ ایک ہی ہو۔

2:جب مسجد مدرسہ کے تابع ہے اور مدرسہ کی ضروریات میں داخل ہے، توایک کےلئے خریدی گئ اشیاء دوسرے میں بلامعاوضہ خرچ کرنادرست ہے ۔

3:اگرمسجد کی مستقل کمیٹی ہو اورہرایک کافنڈ بھی الگ الگ  مقررہو تو یہ وقف کے دو مختلف جہات ہوگئے، تو ایسی صورت  میں ایک کا پیسہ دوسرے میں خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا ۔اورجب جہت مختلف ہے تو متولی کےلئے نہ عاریۃً ایک کا سامان دوسرے کودیناجائز ہے اور نہ قرض کے طورپر ایک کا دوسرے کو دینا جائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

            (کتاب الوقف/ج:4/ص:360/ط:سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف.وكذا إذا اختلف الواقف لا الجهة يتبع شرط الواقف وقد علم بهذا التقرير إعمال الغلتين إحياء للوقف ورعاية لشرط الواقف هذا هو الحاصل من الفتاوى."

            (کتاب الوقف،وقف المسجد/ج:5/ص:234/ط:دارالکتاب)

وفيه ایضاً:

"قال في جامع الفصولين ليس للمتولي ‌إيداع ‌مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض۔"

 ( کتاب الوقف ،تصرفات الناظر فى الوقف/ج:5/ص:259/ط:دارالکتاب)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال العلامة قاسم في فتاواه أجمعت الأمة أن من شروط الواقفين ما هو صحيح معتبر يعمل به."

(شروط الواقفین/ج:5/ص:265/ط:دارالکتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں