ایک دینی ادارہ اپنے ادارے کے زیر نگرانی فری ڈسپنسری طلبہ اور اہل علاقہ کے لیے قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،جس میں ابتدائی طبی امداد ،حجامہ سنٹر،گردوں کا علاج اور آگ میں جلے ہوۓ لوگوں کے لیے مرہم پٹی وغیرہ کا انتظام ہوگا۔
ادویات،ڈاکٹری آلات،بلڈنگ اور عملہ کے اخراجات پر کن کن مدات سے خرچ کرنے کی اجازت ہوگی؟
اس کے مصرف میں خاص تعین اور کونسی مدات میں سے خرچ کرنا مناسب ہوگااور اس کی شرعی اجازت ہوگی؟
ان امور میں ہماری شرعی طور پر راہنمائی فرمائیں کہ کہیں خدمت کے جذبے کے تحت آخرت میں پکڑ نہ ہو۔
1:زکات اور صدقات واجبہ جیسے فطرانہ،کفارات وغیرہ کے پیسوں سے بلڈنگ بنانا،ڈاکٹری آلات خریدنایا عملہ کی تنخواہیں وغیرہ دینا جائز نہیں،البتہ زکات کے پیسوں سےاگر ادویات خرید کر مستحقین زکات کے حوالہ کردی جائیں تو یہ جائز ہوگا۔
2:صدقات نافلہ اور عطیات وغیرہ اگر مدرسہ کے نام پر آئے ہوں تو اس صورت میں ان پیسوں کو مدرسہ اور اس کے مصالح میں استعمال کرنا جائز ہوگا،جس میں طلبہ کے لیے مفت علاج،ادویات ،ڈاکٹری آلات،بلڈنگ بنانااور عملہ وغیرہ کی تنخواہیں وغیرہ دینا جائز ہوگا،البتہ اس صورت میں بھی عام لوگوں کے ان پیسوں سے علاج معالجہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
3:صدقات نافلہ اور عطیات وغیرہ اگر مدرسہ کو اس صراحت کے ساتھ دیے گئے ہو ں کہ ان پیسوں کو مفاد عامہ میں بھی استعمال کرسکتے ہیں تو اس صورت میں ان پیسوں سے مذکورہ اشیاء خریدنا اور تمام لوگوں کا مفت علاج کروانا جائز ہوگا۔
مشورہ:سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ ادارہ اپنی نگرانی میں ایک مستقل فنڈ فلاح عامہ کے نام سے قائم کرے،اور لوگوں کو وضاحت کردے کہ یہ فنڈ فری علاج کے لیے قائم کیا گیاہے،ان پیسوں سے ہم غریبوں کا مفت علاج کروائیں گے ،اس صورت میں زکات اور صدقات واجبہ میں سے جو پیسے آئیں ان سے ادویات خرید کر مستحقین کے حوالہ کردی جائیں ،اور صدقات نافلہ یا عطیات وغیرہ میں جو پیسے آئیں ان کو بلڈنگ وغیرہ اور دیگر اخراجات میں خرچ کیا جاۓ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."
(ج:1،ص: 188، کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ط:بولاق مصر)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
"[مطلب في قولهم شرط الواقف كنص الشارع].
يكره إعطاء نصاب لفقير ومن وقف الفقراء إلا إذا وقف على فقراء قرابته اختيار ومنه يعلم حكم المرتب الكثير من وقف الفقراء لبعض العلماء الفقراء فليحفظ.
(قوله: يكره إعطاء نصاب لفقير إلخ) لأنه صدقة فأشبه الزكاة أشباه (قوله: إلا إذا وقف على فقراء قرابته) أي فلا يكره لأنه كالوصية أشباه ولأنه وقف على معينين لا حق لغيرهم فيه فيأخذونه قل أو كثر (قوله: لبعض العلماء الفقراء) متعلق بالمرتب فإن كان ذلك المرتب بشرط الواقف، فلا شبهة في جواز ما رتبه، وإن كثر وإن كان من جهة غيره كالمتولي، فلا يجوز النصاب هذا ما ظهر لي وفي حاشية الحموي المرتب إعطاء شيء لا في مقابلة خدمة بل لصلاح المعطي أو علمه أو فقره ويسمى في عرف الروم الزوائد اهـ."
(كتاب الوقف،مطلب في قولهم شرط الواقف كنص الشارع،ج:4،ص:435،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101236
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن