بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں طلبہ کی چھوڑی ہوئی کتابوں کا حکم


سوال

مختلف مدارس میں طلبہ کی چھوڑی ہوئی کتابوں کو ان کے جانے کے بعد استعمال کرنے یا پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ اور حالت ایسی ہے کہ ان کتابوں کو مالک تک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا اور ایسا بھی ہوتا ہے  کہ ان کتابوں کا مالک نا معلوم رہتا ہے۔

جواب

تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ سے جاتے ہوئے طلبہ اپنی جو کتابیں جان بوجھ کر چھوڑ جاتے ہیں تو ان چھوڑی ہوئی کتابوں کی حیثیت مباح چیز کی ہوگی یعنی ان کتابوں کو جو بھی پہلے اٹھالے وہی ان کا مالک شمار ہوگا اور ان کتابوں میں اسے مالکانہ تصرفات کا حق حاصل ہوگا۔

اور اگر یہ کتابیں  بھولے سے رہ گئی ہوں تو ان کی حیثیت لقطہ کی ہوگی،اور لقطہ کاحکم یہ ہے وہ چیز(یعنی لاوارث کتابیں وغیرہ) قیمتی ہوگی یا قیمتی نہیں ہوگی،( قیمتی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرفاً اس کے مالک کا خاص  اسے ڈھونڈنے کے لیے آنا متوقع نہیں ہے)اگر وہ چیز قیمتی ہےتواس چیزکو  اس کے مالک تک پہنچانے کے لیے اس کی حتی الوسع تشہیر کرنا لازم ہے یہاں تک کہ غالب گمان ہوجائے کہ اب اس کے مالک تک نہیں پہنچ سکتا، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئےاور  (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ چیز کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکات کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے،البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی چیز کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا، اور اگر قیمتی چیز نہ ہو تو بغیر تشہیر کے بھی صدقہ کرنے کی گنجائش ہے، اور اگر خود مستحقِ زکات ہو تو استعمال کرنے کی بھی گنجائش ہے۔

ملتقی الابحر میں ہے:

"وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر."

(کتاب اللقطہ،ج1:ص:529،ط:دارالکتب العلمیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فلها أحوال مختلفة قد يكون مندوب الأخذ، وقد يكون مباح الأخذ، وقد يكون حرام الأخذ أما حالة الندب: فهو أن يخاف عليها الضيعة لو تركها فأخذها لصاحبها أفضل من تركها؛ لأنه إذا خاف عليها الضيعة كان أخذها لصاحبها إحياء لمال المسلم معنى فكان مستحبًّا -والله تعالى أعلم- وأما حالة الإباحة: فهو أن لايخاف عليها الضيعة فيأخذها لصاحبها، وهذا عندنا."

(كتاب اللقطه ،6/ 200، ط:دارالكتب العلميه)

فقط والله اعلم  


فتوی نمبر : 144501100469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں