بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں سالانہ جلسہ کے انعقاد کے لیے چندہ کا حکم


سوال

آج کل مدارس اسلامیہ میں سال کے اختتام پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں معلوم یہ کرنا ہے کہ :

ان پروگرامات کے انعقاد سے پہلے جو طلبا ء وطالبات فارغ ہورہے ہوتے ہیں ،ان سے ایک اچھی خاصی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ کی وجہ سے یہ پروگرام کا انعقاد ہے یہ رقم آپ کو ضرور دینی ہوگی اور بار بار یا ددہانی کے طور پر طلباء وطالبات پر پریشر بھی دیا جاتا ہے آیا اس طرح رقم کا مطالبہ کرنا کیسا ہے ؟

غریب والدین بچے کی عزت نفس مجروح  ہونے سے بچانے کے لیے کسی سے ادھار لے کر ادارہ کے حوالہ کرنا ،آیا اس رقم کا ادارہ کے لیے استعمال کیسا ہے ؟

ادارہ اساتذہ کو ان پروگرامات میں جمع شدہ رقم سے کپڑے وغیرہ دیتے ہیں ،آیا اساتذہ کے لیےا ن کپڑوں کا استعمال جائز ہے ؟

اس جمع شدہ رقم سے  طلباء اور اساتذہ کے درمیان انعامات تقسیم کرنا مثلاً: اساتذہ کو کارکردگی کا ایوارڈ بنا کر دینا ،طلباء کو مڈل سے نوازنا ،آئے ہوئے خصوصی مہمانوں کو بھی ایوارڈ اور ہدیہ دینا ان تمام چیزوں کا کیا حکم ہے ؟

کمزور طلباء وہ رقم جو ادارے نے مانگی وہ نا دے تو ان کو باتیں سنا کر دوسرے طلباء سے جمع شدہ رقم سے ان کے لیے کپڑے اور مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا  ان طلباء کی اجازت کے بغیر کیسا ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ مدارس میں سال کے اختتام پر جو پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں وہ شرعاً جائز ہے، بشرط یہ کہ اس میں کسی غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً: جاندار کی تصویر سازی،طلباء کو چندہ دینے پر مجبور کرنا  وغیرہ ،اگر شریعت کے حدود کی رعایت رکھ کر اختتامی پروگرام کا انعقاد کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں  ،اس کی وجہ سے بچوں میں شوق پیدا ہوتا ہے اور والدین کے دلوں میں اپنے بچوں کو دین کی طرف  لانے کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور بچوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور یہی مدارس میں سال کے اختتام پر پروگرامات منعقد کرنے کا مقصد ہوتا ہے ۔اس غرض کے لیے اگرمہتمم طلبہ کےوالدین سےایک مخصوص رقم کی درخواست کرے اور وہ بطیب خاطر یہ رقم اداکرلیں تواسے  سالانہ جلسہ کے اخراجات  کی مد میں صرف کرناجائزہے،لیکن اگر کسی طالب علم کاسرپرست یا والدین اپنی مرضی سے رقم نہیں دیتا تواس کی رضامندی کے بغیرمہتمم کے لیے اس سے جبراً  رقم وصول کرناجائزنہیں،باقی جو رقم جس مقصد کے لیے جمع کیا جائے تو اس کو اسی مصرف میں استعمال کرنا ضروری ہے ،اور اس کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ ادارہ از خود  ان جیسے پروگرامات کے لیے مخیر حضرات کو متوجہ کرکے انعقاد  کرے، اور اس سلسلے میں تکلفات اور غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کرے۔

  مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

  1. اگر ادارہ بچوں کے والدین کو  جلسہ کے لیے رقم دینے پر مجبور نہ کریں اور وہ طیب خاطر سے  رقم دیں تو اس کا لینا شرعاً جائز ہوگا ،لیکن اگر اس میں والدین کی رضامندی نہ ہو یا والدین اپنے بچوں کی عزت نفس مجروح ہونے  سے بچنے کے لیے بحالت مجبوری رقم اداکریں تو اس صورت میں اس کا لینا اور خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا ۔
  2. مذکورہ رقم اگر رضامندی سے وصول کی جائے   تو پھر اساتذہ کو اس رقم سے کپڑے وغیرہ دینا جائز ہے،  ورنہ نہیں ۔
  3. رضامندی کی صورت میں جائز ہے،  ورنہ نہیں ۔
  4. کمزور طلباء کو رقم دینے پر مجبور کرنا اور رقم نہ دینے کی صورت میں عزتِ نفس کو مجروح کرنا شرعاً جائز نہیں ،البتہ اگر دیگر طلباء سے ان کی رضامندی سے رقم جمع کی جائے اور اس کے ذریعہ دوسرے  وہ طلباء  جنہوں نے رقم نہیں دی ان میں کپڑے وغیرہ تقسیم کی جائے  تو یہ جائز ہے،  ورنہ نہیں ۔

ملحوظ رہے کہ چندے کے لیے ایسا انداز اختیار کرنا جس سے سامنے والا دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی دینے پر مجبور ہوجائے یہ درست نہیں ہے، نیز دینی دعوت و اِصلاح اور دیگر امور میں ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا  ان امور سے بھی اجتناب کیا جائے۔

حدیث میں ہے :

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألالاتظلموا ألا لا يحل ‌مال ‌امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان".

(مشکاۃ المصابیح ،باب الغصب والعاریۃ،ج:2،ص:889،المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:269،سعید)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟

قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإان لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."

(کتاب الوقف،ج:8،ص:177،مکتبہ زکریا دیوبند)

امدادالفتاوی میں ہے :

"سوال (۶۹۵):چندہ کے احکام وقف کے ہونگے یا مہتمم  تنخواہ  مقررہ سے زائد  بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:یہ وقف نہیں ،معطیین کا مملوک ہے اگر اہل چندہ  صراحۃ یا دلالۃ  انعام دینے پر  رضامند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں ۔"

(کتاب لوقف ،ج:2،ص:560،ط:دارالعلوم کراچی )

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

 "حفظ قرآن کی تکمیل کے وقت دعاء کی قبولیت سے انکار کی گنجائش نہیں  ہے ، ختم بخاری شریف پر دعاء کا قبول ہونا اکابر کا مجرب ہے ، تکمیل بخاری کے موقع پر دعاء کا اہتمام ہوتا ہے اس پر مداومت تو ہے مگر اصرار نہیں  ہے ، جو حضرات تکمیل حفظ قرآن مجید کے موقع پر دعا کا اہتمام کرتے ہیں  نہ ان پر نکیر کی جاتی ہے اور نہ اس کی اہمیت سے انکار کیا جاتا ہے او رنہ اس پر اس کی ترجیح دینا مقصود ہے ، لہذا یہ بھی صحیح ہے اپنے اپنے موقع پر ہر ایک پر عمل ہوتا ہے ،بحالت اعتکاف معتکف قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے ہیں  اور ا س کے ساتھ بہشتی زیور یا اور کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں  تو یہ نہ کہا جائے گا کہ بہشتی زیور کو قرآن مجید پر ترجیح د ے دی گئی ، دونوں  اپنے اپنے موقعہ پر بالکل صحیح ہیں ، قرآن پاک کی تلاوت بھی کرے اور موقعہ ہونے پر بہشتی زیور یا اور کوئی دینی کتاب کا مطالعہ کرے، دونوں  صحیح ہیں  ۔  نیز یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ آج کل دنیوی تعلیم کو دینی تعلیم پر جواہمیت دے دی گئی ہے وہ سب پر ظاہر ہے، کسی پر مخفی نہیں  ہے ، اگر کوئی شخص دنیوی تعلیم کی کوئی اعلیٰ ڈگری حاصل کرتا ہے تو ا س کی کس قدر حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی جاتی ہے، چاروں  طرف سے مبارک بادی پیش کی جاتی ہے ، اس کے اعزاز میں  جلسوں  اور محفلوں  کا انعقاد ہوتا ہے ہر موقع پر اس کی ڈگری بڑے نمایاں  انداز میں  فخریہ ظاہر کی جاتی ہے ۔ نکاح کی دعوت نامہ ہو یا کوئی اور موقع ہو  بڑے اہتمام سے اسے لکھا جاتا ہے، ایسے ماحول میں  دینی تعلیم کی اہمیت واضح کرنے اور طلبہ ٔ علوم کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی بھی سخت ضرورت ہے کہ دوسروں  کو بھی اپنے بچوں  کو عالم بنانے کا جذبہ اور شوق پیدا ہو،نیز اس بہانے علمائے اسلام اور محدثین عظام کی دینی اور حدیث پا ک کی عظیم الشان خدمات بھی لوگوں  کے سامنے آتی ہیں ، اور ان کے قلوب میں  ان کتابوں  کی عظمت پیدا ہوتی ہے اور ان کے دلوں  اور عقیدہ کی اصلاح کا سبب بھی ہوسکتا ہے ، اس مقصد سے پہلے سے تاریخ بھی متعین کر دی جاتی ہے کہ شریک ہونے والوں  کو سہولت رہے ، اگر طعام پر شرح صدر نہ ہو تو طعام سے احتراز کرے ۔ امراض ومصائب، شدائدو بلیات کے وقت بخاری شریف کا ختم بطور علاج ہے ، مقصود دفع امراض و بلیات ہے ، مقصود عبادت نہیں، نہ اسے شرعی حکم یا سنت سمجھ کر کیا جاتا ہے ، جس طرح ہمارے اکابر کے یہاں  ختم خواجہ گان اور ختم یٰس کا معمول ہے یہ بھی بطور عبادت نہیں  ہے لہذا اس کی گنجائش ہونی چاہیے ۔"

 (کتاب السنۃ والبدعۃ، جلد:2، صفحہ: 163، طبع: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں