بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں بکرے کی مد میں آنے والی رقم سے بکرا خریدنے اور اس کو استعمال کرنے سے متعلق چند سوالات


سوال

ایک دینی ادارے کے دفتر محاسب میں اہلِ خیر کی جانب سے صدقے کے بکرے کی مد میں رقم جمع ہوتی ہے، اس کی اطلاع شعبۂ مطبخ کے ذمہ داروں کو دے دی جاتی ہے، وہ اس رقم سے جانور خرید کر ذبح کرنے کا مکمل اہتمام کرتے ہیں اور مرکز یا شاخ میں اس کے استعمال کی ترتیب بنائی جاتی ہے،  اس سلسلہ میں چند باتیں جواب طلب ہیں:

1۔ بادی النظر میں ، اس طرح کے صدقات دفع ِ مصائب یا اراقۃ الدم کے لیے دیے جاتے ہیں اور بظاہر توقع یہ کی جاتی ہوگی کہ ادارہ فوراً ہی جانور خرید کر ذبح کرلےگا، مگر بوجوہ عملاً ایسا ہو نہیں پاتا، جس کی کچھ وضاحت آگے آرہی ہے، اس صورت میں ادارے کی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ کیا فوراً جانور خرید کر ذبح کرنا ہی ضروری ہے یا کسی مجبوری کی وجہ سے اس میں تاخیر کی گنجائش ہوگی؟ یا معطی سے عندیہ لے لیا جائے کہ فوری ذبح کرنا ہے یا حسبِ ضرورت کرنا ہے؟ جب کہ بعض مرتبہ بوجوہ ، ادارے میں فوری گوشت کی ضرورت نہیں ہوتی، تعطیلات کی وجہ سے یا پہلے سے گوشت دستیاب ہونے کی وجہ سے، اور بعض مرتبہ اس رقم میں مناسب جانور دستیاب نہیں ہوتا۔ نیز کیا یہ سوچ درست سمجھی جائے گی کہ مصدق نے رقم جمع کرادی ہے، اس کے گمان کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی دور فرمادیں گے ، نیز محاسب کے ذمہ داران چوں کہ طلبہ کے وکیل ہیں اس لیے ان کے وصول کرنے سے گویا صدقہ ادا ہوگیا، اس کے بعد ادارہ اپنی صواب دید/ ضرورت کے مطابق جانور خرید کر استعمال کرے؟ تاہم یہ ملحوظ رہے کہ جانور کے صدقے کے لیے آنے والی رقوم صرف جانور وں کی خریداری اور ذبح میں استعمال ہوتی ہیں۔

2۔ ہمارے یہاں صدقہ کے جانور کی کم از کم رقم 12000مقرر ہے، مگر موجودہ حالات میں اس رقم میں مناسب جانور دستیاب نہیں ہوتے، اگر قیمت بڑھائیں تو بعض لوگ تو اضافی قیمت کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں جب کہ بعض اس پر آمادہ نہیں ہوتے، اس سلسلے میں ہمارے سامنے چند صورتیں ہیں:

الف) ایک آدمی نے 12000 روپے جمع کرائے اور دوسرے نے مثلاً اضافے کے ساتھ 20000جمع کرائے، تو کیا ہم اس مجموعی 32000کے دو عدد بکرے اوسط کرکے خرید سکتے ہیں یا کہ ہم پابند ہیں کہ 12000 کے لیے اتنی ہی رقم کا جانور تلاش کریں خواہ وہ لاغر / بیمار اور کم وزن کا ہو؟

ب) صدقہ کی رقم دو صاحبان نے 12000روپے کے حساب سے جمع کرائی، ہم 24000 روپے میں معیاری اور وزنی، ایک عدد بکرا خرید لیں جس کا وزن شاید دو الگ الگ کمزور بکروں سے زیادہ ہوگا، کیا اس  صورت میں ہم مصدّق کی طرف سے عہدہ برآ ہو جائیں گے ؟

3۔ صدقہ کے جانور لانے کا کرایہ، اجرتِ قصاب کا حساب وغیرہ اب تک ادارے کے اجتماعی کھاتے سے ادا کیے جاتے ہیں، کیا اس بات کی اجازت ہوگی کہ صدقے کے بکرے کی جو رقم بھی متصد ق سے لی جائے، اس میں جانور لانے کا کرایہ، اجرتِ قصاب کا حساب ،بلا صراحت منہا کیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ مدرسہ کے مہتمم یااس کی طرف سے مقرر کردہ  نمائندوں کی  صدقات اور زکوٰۃ کی  وصولی اور اس   کو خرچ کرنے  کے اعتبار سے دو حیثیتیں ہیں :

1۔یہ  مدرسہ کے  طلبہ کے وکیل ہوتے  ہیں، لہذا  مدارس  کے نمائندے کو زکوٰۃ یا صدقات  حوالہ کرنے سے دینے والوں  کی زکوٰۃ اور صدقات ادا ہو جائیں گے۔

2۔ مدرسہ والے زکوٰۃ اور صدقات دینے والوں کی طرف سے امین ہوتے ہیں، اور طلبہ کی طرف سے وکیل ہوتے ہیں، یہ رقم ان کے پاس امانت ہوتی ہے ،  ان پر لازم  ہے کہ اس  زکوٰۃ اور صدقات کی رقم   کو  صحیح مصرف میں خرچ کریں، اس میں  کوتاہی نہ کریں، نیز  زکوٰۃ اور صدقات دینے والے کسی  متعین مصرف پر خرچ کرنے کا کہیں تو اس کی پابندی بھی ضروری ہوگی   ،  اگر مدارس کے نمائندے زکوٰۃ  اور صدقات کی رقم کو صحیح  مصرف پر  خرچ نہیں کریں گے تو امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہوں گے اور ضامن بھی۔

مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1: اگر مذکورہ ادارے میں بکرے کی مد میں رقم جمع کرانے والے یہ صراحت کریں کہ اس رقم سے فوری   (مثلاً آج یا کل میں ہی ) بکرا ذبح کرکے اس  کا گوشت طلبہ کو کھلانا ہے تو ایسی صورت میں اس   کی شرط کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، لہذا اگر ادارہ   اس کا اہتمام کرسکتا ہے تو  رقم وصول کرکے اس کا انتظام کروادے ، ورنہ  اسی وقت معذرت کردے۔ اور اگر بکرے کی مد میں رقم دینے والوں کی طرف سے   فوری طور پر ذبح کرکے طلبہ کو کھلانے کی صراحت نہ ہو،  بلکہ مطلقا بکرا ذبح کرکے طلبہ کو  گوشت کھلانے کے لیے دیا ہو تو ایسی صورت میں ادارہ اپنی صواب دید اور طلبہ کی  ضرورت  کو مد نظر رکھتے ہوئے  اس رقم سے بکرا خر ید کر  ذبح کرکےان کو کھلاسکتا ہے، تاہم ان  دونوں صورتوں میں ادارے کے نمائندے جیسے ہی رقم وصول کرلیں گے  صدقہ دینے والوں کا صدقہ اسی وقت ادا  ہوجائے گا ، البتہ عقیقہ  کا  بکرا  ہو  تو بچہ کا عقیقہ اس وقت ادا ہوگا جب بکرا  ذبح ہوگا، لہذا  عقیقہ کے بکرے میں   رقم  دینے والوں سے پوچھ کر مسنون وقت میں بکرا  ذبح کرنے کا اہتمام  کیا جائے۔

2: اگر  رقم دینے والے نے   بکرا ذبح کرنے  کے لیے رقم دی ہے  اور ادارہ نے بکرے کی  کم از کم رقم بھی متعین کی ہوئی ہے  تو ایسی صورت میں   اس شخص کی رقم سے  بکرا لینا ضروری ہوگا، اسی طرح جس نے زیادہ رقم دی ہے اس نے  اعلیٰ بکرے کے لیے رقم دی ہے تو اس کی طرف سے بھی  اعلیٰ والا بکرا لینا ضروری ہوگا، رقم دینے والوں کی اجازت کے بغیر دونوں کی رقم ملاکر مشترکہ  طور پر دو  متوسط بکرے لے لینا یا دو  لوگوں کی طرف سے ایک بکرا لے لینا درست نہیں ہے، اس لیے  بکرے کی کم از کم قیمت ماہرین سے معلوم کرکے متعین کی جائے یا  رقم دینے والوں سے صراحتاً اجازت لے لی جائے( مثلاً یہ  کہ اگر آپ کی دی ہوئی رقم سے  ایک مکمل بکرا نہیں مل سکا تو اس میں اسی مد میں آئی ہوئی دوسری رقم ملاکر بکرا لے لیا جائے گا اور اسی طرح یہ بھی اجازت لی جائے کہ اگر  آپ کی رقم سے بکرا خرید لینے کے بعد رقم بچ گئی تو اسی مد میں خرچ کرلی جائے گی وغیرہ)

3: صدقہ کے بکرا لانے کا کرایہ، قصائی کی اجرت وغیرہ یہ سب صدقہ کے بکرا  ذبح کرنے   کے لوازمات اور توابع میں سے ہیں،لہذا یہ اخراجات  بکرا  ذبح کرنے کے لیے آئی ہوئی رقم سے  لے سکتے ہیں،البتہ  رسید میں اس کی صراحت بھی کردی جائے  تو زیادہ بہترہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

و في الرد :  (قوله: ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اهـ تأمل، ثم قال في التتارخانية أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات؛ وكذلك المتولي إذا كان في يده أوقيات مختلفة وخلط غلاتها ضمن وكذلك السمسار إذا خلط الأثمان أو البياع إذا خلط الأمتعة يضمن. اهـ. قال في التجنيس: ولا عرف في حق السماسرة والبياعين بخلط ثمن الغلات والأمتعة اهـ ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن. قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة.

(قوله: إذا وكله الفقراء) لأنه كلما قبض شيئا ملكوه وصار خالطا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع."

(کتاب الزکوٰۃ، 2/ 269، ط: سعید)

فتح القدير ميں  ہے:

"والحق الذي يقتضيه النظر إجراء صدقة الوقف مجرى النافلة، فإن ثبت في النافلة جواز الدفع يجب دفع الوقف وإلا فلا إذ لا شك في أن الواقف متبرع بتصدقه بالوقف إذ لا إيقاف واجب، وكأن منشأ الغلط وجوب دفعها على الناظر وبذلك لم تصر واجبة على المالك بل غاية الأمر أنه وجوب اتباع شرط الواقف على الناظر."

(کتاب الزکوٰۃ، 2/ 273،  ط: دار الفكر)

الموسوعہ الفقہیہ   میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".

(  الوکالة، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال،45/ 87، ط: طبع الوزارة)

فتاوی شامی میں ہے :

"وقد قالوا في ‌توابع العقود التي لا ذكر لها فيها: إنها تحمل على عادة كل بلد كالسلك على الخياط، والدقيق الذي يصلح الحائك به الثوب على رب الثوب، وإدخال الحنطة المنزل على المكاري."

 (کتاب الاجارۃ، 6/ 54، ط: سعید)

العناية شرح الهدایہ میں ہے :

"فإن الشيء إذا ثبت ‌ثبت ‌بلوازمه."

 ( کتاب القضا، 7/ 311، ط: الحلبي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510100211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں