بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں دیے جانے والے وقف مال کا حکم


سوال

مدارس میں جو وقف کا مال دیا جاتا ہے  اس کا کیا حکم ہے ، کیوں کہ اس میں بعض اوقات حرام مال بھی  ہوتا ہے ؟

جواب

مدارس میں جو رقوم دی جائیں وہ اگر واجب التصدق رقوم (جیسےبینک کی سودی رقم،لقطہ وغیرہ) ہوں تو انہیں  مصرف زکوٰۃ میں خرچ کرناضروری ہےیعنی کسی مستحقِ زکوٰۃ فقیرکو مالکانہ طورپر دیناضروری ہے،تعمیرات و اساتذہ کی تنخواہوں میں استعمال کرناجائز نہیں۔

نیزواضح رہے کہ واجب التصدق رقوم (مثلاً سودی رقم وغیرہ)اور واجب صدقہ (مثلاًکفارہ ،فدیہ وغیرہ) کامصرف فقراء ہیں، اس کوتعمیرات تنخواہوں یا دیگر رفاہی کاموں میں استعمال کرنادرست نہیں، واجب التصدق اموال کااگرچہ  صدقہ کرناواجب ہے، لیکن اس میں ثواب کی نیت کرناجائزنہیں،  بلکہ اگرکسی نے ثواب کی نیت کی، تو فقہاء کی تصریحات کے مطابق،  اس پر کفر کا اندیشہ ہے، اس  میں صدقہ کرنے والےکاارادہ صرف فراغ الذمہ ہوتاہے۔

باقی زیرِ نظر مسئلہ میں اہلِ مدارس کو چاہیے کہ غریب اور مستحق ِ زکوۃ دین حاصل کرنے والوں کے لیے سودی رقم وغیرہ نہ لیں اور نہ ہی طلبہ پر خرچ  کریں بلکہ دیگر صدقات ِ واجبہ جو سودی رقم کے علاوہ ہوں ، طلبہ کے لیے وصول کرکے طلبہ پر خرچ کریں ۔

 بذل المجہودميں ہے:

"فالحاصل أن التصدق من مال حرام غير مقبول، حتى قال بعض علمائنا: من تصدق بمال حرام يرجو الثواب كفر.قلت: فإن قيل: صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء، فهذا القول منهم يخالف الحديث المذكور، فإن الحديث دال على حرمة التصدق بالمال الخبيث، وقد نص الله تعالى في كتابه: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ} (1) الآية، وقولهم بوجوب التصدق معارض بالحديث والآية، فما وجه التوفيق بينهما؟

قلنا: الآية والحديث يدلان على حرمة التصدق بالمال الحرام لأجل تحصيل الأجر والثواب، وقد أشير إليه في الحديث بقوله: "لا يقبل الله" فإذا تصدق بالمال الحرام يريد القبول والأجر يحرم عليه ذلك، وأما إذا كان عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يردّه إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلَّا أن يدفعه إلى الفقراء, لأنه لو أنفق على نفسه فقد استحكم ما ارتكبه من الفعل الحرام."

 (کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء:ج:1ص:359: تحت رقم الحدیث:59:ط:بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں