بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں زکوٰۃ دینا جائز ہے


سوال

کیا مدارس میں زکوٰۃ دے سکتے ہیں ؟ اگر ہاں تو وہاں تو تملیک نہیں ہوتی ،اور جو تملیک ہوتی ہے وہ رسمی سی بات ہے ایک دھوکا ہے، جب کہ زکوٰۃ  کے لیے مالک بنانامستحق کو ضروری ہے ۔

جواب

دینی مدارس    کی انتظامیہ   نے مستحق طلباء کی کفالت کی ذمہ داری لی ہوئی ہے،ان میں زکوٰۃ دینا  نا صرف جائز ہے، بلکہ دہرے اجر کا باعث ہے، مدارس میں  زکوٰۃ  دینا غریب  طلبہ  کی امداد کے ساتھ ساتھ دین کی نشرو اشاعت  میں تعاون بھی ہے،باقی رہا تملیک کا مسئلہ تو اس بارے میں ہماری معلومات کے مطابق  مہتمم مدرسہ عالم دین اور شرعی مسائل سے واقف ہوتے ہیں، اور  زکوٰۃ  کی تملیک یا  بوقتِ مجبوری حیلہ تملیک کے شرعی تقاضے پورے کرتے ہیں، بلا ثبوت یا بلا تحقیق اس بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہیے، ہاں اگر کسی مدرسہ میں    تملیک کے شرعی تقاضے پورے نہیں کرتے ہوں تو  یہ ان کا اپنا قصور ہے، اس وجہ سے تمام مدارس کے بارے  میں بد ظن ہونا  یا بد ظنی پیدا کرنا ٹھیک نہیں۔ باقی  اگر سائل کو تملیک کی کسی خاص  صورت پر اشکال ہو ،تو اس کی پوری  وضاحت  کر کے اس کے بارے میں معلوم کرسکتا ہے۔

ملاحظہ: تفصیلی فتوٰی کے لیے جامعہ کے فتاوٰی بینات  کے جلد 3 کتاب الزکاۃ میں تفصیلی فتوٰی موجود ہے ،اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔

امداد الفتاوی میں  ہے:

"نعم إن علم الآخذ أنه تمليك بالشرط و قبل يتادي الزكوٰة بلا شبهة أن الهبة و الصدقة لاتفسدان بشرط الفاسد."

(كتاب الزكاة، سوال نمبر:28، حكم زكاة درمال حرام (حاشيه) 533/3، ط: زکریا بك ڈپو انڈیا الھند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و كل حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن ‌حرام أو ليتوصل بها إلى حلال ‌فهي ‌حسنة."

(كتاب الحيل، الفصل الأول في بيان جواز الحيل، 390/6، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں