بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں تقرر کے وقت چندہ جمع کرانا


سوال

بعض ایڈ  مدارس  کے اندر  اساتذہ کی تقرری کے وقت جو دس پندرہ لاکھ تک کی رقم جس کو  رکھا جاتا ہے، اس سے لی جاتی ہے اور  اس کو  چندہ کا نام دیا جاتا ہے،جب کہ اس سے قبل یا مابعد کبھی کسی مدرسہ یا غریب کو اتنا چندہ نہیں دیا تو کیا یہ   چندہ   کے نام پر  پیسہ  دے کر خود کو سلیکٹ کرانا درست ہے؟ یا رشوت ہوگی ؟

جواب

جواب سے قبل یہ وضاحت ضروری  ہے کہ  ہمارے  ہاں ایسے مدارس موجود نہیں ہیں جن میں استاذ سے بوقتِ تقرر چندے کے طور پر رقم لی جاتی ہو، نیز دیگر ممالک کے مدارس کے بارے میں بھی ہمارے علم میں ایسی بات نہیں ہے۔ تاہم اگر سائل کے ملک کے بعض مدارس میں یہ رواج ہے تو اس کا حکم درج ذیل ہے:

واضح رہے کہ کسی انسان کا مال اُس  کی دلی رضا مندی کے بغیر کسی شخص کے لیے لینا حلال نہیں ہے؛ لہٰذا جب تک   مالک اپنا مال بغیر کسی معاشرتی، اخلاقی اور سماجی دباؤ کے خرچ نہ کرے اُس وقت تک یہ مال کسی کے لیے حلال نہیں ہو گا، اور جہاں یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہاں طیبِ نفس نہیں پایا جا رہا،  بلکہ مالک نے کسی دبا ؤ کے تحت  اپنا مال خرچ کیا ہے تو یقیناً اس حدیث کی رو سے اس کے مال سے استفادہ کرنا   درست نہیں  ہو گا۔

اگر کسی مدرسے میں تقرری کے وقت چندہ کے عنوان سے  خطیر رقم وصول کی جاتی ہے  جب کہ دینے والے  نے اس موقع کے علاوہ کسی دوسرے موقع پر اتنی رقم کبھی جمع نہیں کرائی ہوتی تو  بلا شبہ اس طرح چندہ دینا اور لینا اداروں کے لیے  حلال نہیں ہے،اگر  دینے والے کا مقصد بھی اس رقم کے دینے سے اپنی تقرری کرانی ہوتی ہے،نہ  کہ خیر کے کام میں تعاون تو یہ لین دین ’’رشوت‘‘  کہلائے گی ،لہذا  اس عمل و رواج  سے  بچنا ضروری ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

"قال رسول الله صلى الله علیه و سلّم: ألا لاتظلموا، ألا لایحلّ مال امرء إلا بطیب نفس منه."

(مشکوٰۃ، ج:1، ص:255، ط:قدیمی)

  ترجمہ: خبردار اے مسلمانو! ظلم نہ کیا کرو، اور یاد رکھو کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔

 سنن أبی داود  میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»".

(3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

مبسوط سرخسي ميں ہے:

"و قوله: لايرتشي المراد الرشوة في الحكم و هو حرام، قال صلى الله عليه وسلم: «‌الراشي و المرتشي في النار» و لما قيل لابن مسعود -رضي الله عنه -: الرشوة في الحكم سحت، قال: ذلك الكفر، إنما السحت أن ترشو من تحتاج إليه أمام حاجتك."

(كتاب ادب القاضي ،ج:16،ص:67،ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں