بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس کے مدرس کا زکوٰۃ اور عشر وصول کرکے ذاتی استعمال کرنا


سوال

ادارہ کی مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق مدارس کے مدرسین  ادارہ کے منتظمین  کی اجازت کے بغیر  عشر گندم، زکوٰۃ، صدقات اور فطرانہ وصول نہیں کرسکتے۔اگر  ادارہ کی انتظامیہ کی اجازت  بغیر کوئی مدرّس عشر وصول کرکے اپنے ادارہ کو بتائے بغیر  گھر میں استعمال کرتا ہے، معلوم ہوجانے پر وہ کہتا ہے کہ  میں نے اپنے لیے وصول کئے ہیں، وہ بچوں کی تعلیم کے دوران مدرسہ سے غائب ہوکر عشر کی وصولی کرتا  ہے، اس طرح کرنا شرعاً  کیسا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر مذکورہ مدرس  نے مدرسہ کے نام پر لوگوں سے  زکوٰۃ ، صدقات اور عشر  وصول کیا  ہو، یا وہ   مدرسہ کی طرف سے چندہ کی وصولی پر مامور ہو  یا مدرسہ کی طرف سے سفیر بن کر کہیں گیا  ہو اور  اور  مدرسہ نے اس کو شخصی طور پر ہدایا اور  صدقات وصول کرنے سے منع کیا ہو تو ایسی صورت میں اس کے لیے  زکوٰۃ ، صدقات اور عشر وصول کرکے اپنی ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے،   بلکہ مدرسہ میں جمع کرانا ضروری ہے، اسی طرح مدرسہ کے مفوضہ اوقات میں  بھی مدرسہ سے غائب ہوکر ذاتی ضرورت کے لیے زکوٰۃ ، صدقات اور عشر وصول کرنا جائز  نہیں ہے۔

البتہ اگر  مذکورہ  شرائط نہ پائی جائیں، اور مذکورہ مدرس، مدرسہ کے اوقات کے علاوہ  وقت  میں  لوگوں سے اپنی ضرورت ذکر کرکے، اپنے لیے  زکوٰۃ ، صدقات اور عشر  وصول کرے، اور لوگ بھی اس کی ذات کے لیے  زکوٰۃ وغیرہ دیں اور وہ  مستحق بھی ہو تو  ایسی صورت میں اس کو جو زکوٰۃ و وعشر وغیرہ ملا ہے، اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہوگا۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ   جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت بنالینا  جائز نہیں ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"  مدرسہ  کے مدرس اور  مبلغ جو صرف تدریس اور تبلیغ کے کام پر مامور ہوں یعنی فراہمی چندہ ان کا فرض منصبی  نہ ہو مدرسہ سے رخصت حاصل کرکے کسی  جگہ  جاکر وعظ  کریں  اور ان کو شخصی  طور پر کوئی چیز  یا نقد  ہدیہ  ملے تو وہ ان کی اپنی ہے ،  ہاں  سفراء جو فراہمی چندہ کے کام پر مامور ہوں اور مدرسہ نے انکو شخصی طور پر  ہدیہ لینے سے روک دیا  ہو ان پر لازم ہے کہ یا تو وہ شخصی ہدایا قبول نہ کریں یا قبول کریں تو مدرسہ کے  فنڈ میں ڈال دیں۔   محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ، دہلی ۔"

(8/ 172، کتاب الهبة والعارية، ط: دارالاشاعت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي: استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الأزد يقال له ابن اللتبية الأتبية على الصدقة فلما قدم قال: هذا لكم وهذا أهدي لي فخطب النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله وأثنى عليه وقال: " أما بعد فإني أستعمل رجالا منكم على أمور مما ولاني الله فيأتي أحدكم فيقول: هذا لكم وهذا هدية أهديت لي فهلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر أيهدى له أم لا؟ والذي نفسي بيده لا يأخذ أحد منه شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته إن كان بعيرا له رغاء أو بقرا له خوار أو شاة تيعر " ثم رفع يديه حتى رأينا عفرتي إبطيه ثم قال: «اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت» . . قال الخطابي: وفي قوله: «هلا جلس في بيت أمه أو أبيه فينظر أيهدى إليه أم لا؟» دليل على أن كل أمر يتذرع به إلى محظور فهو محظور وكل دخل في العقود ينظر هل يكون حكمه عند الانفراد كحكمه عند الاقتران أم لا؟ هكذا في شرح السنة."

(1/ 156، كتاب الزکاۃ، الفصل الاول  ،ط: سعید ) 

حاشية ابن عابدين (رد المحتار)  میں ہے:

"قال في جامع الفصولين القاضي لا يقبل الهدية من رجل لو لم يكن قاضيا لا يهدي إليه ويكون ذلك بمنزلة الشرط ثم قال أقول: يخالفه ما ذكر في الأقضية إلخ، قلت: والظاهر عدم المخالفة؛ لأن القاضي منصوص على أنه لا يقبل الهدية على التفصيل الآتي فما في الأقضية مفروض في غيره فيحتمل أن يكون المفتي مثله في ذلك، ويحتمل أن لا يكون والله سبحانه أعلم بحقيقة الحال، ولا شك أن عدم القبول هو المقبول ورأيت في حاشية شرح المنهج للعلامة محمد الداودي الشافعي ما نصه قال ع ش: ومن العمال مشايخ الأسواق والبلدان، ومباشرو الأوقاف وكل من يتعاطى أمرا يتعلق بالمسلمين انتهى."

(5 / 373، كتاب القضا، ط:سعيد)

وفیہ أیضا:

"لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم". 

(2/ 164، كتاب الزكاة، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144310100671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں