ہمارے گاؤں میں بعض چھوٹے جزء وقتی مدارس ہیں، جن میں بچوں کو ناظرہ ،قاعدہ کی تعلیم دی جاتی ہے،بعض جگہ تو مساجد میں ہی سلسلہ ہوتاہے اور بعض جگہ مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ کی بھی عمارت ہے ، لیکن جزء وقتی ہے اور عموماً اکثر طلباء نابالغ ہوتے ہیں ، پوچھنایہ ہے کہ ان جزء وقتی مدارس کے منتظمین کو صدقۃ الفطر اور زکاۃ کی رقم دے سکتے ہیں ؟ بعض منتظمین کے بقول وہ رقم مستحق بچوں کو قرآن کریم اور قاعدہ خرید کر فراہم کرنے میں خرچ ہوتی ہے ،کیا صدقۃ الفطر اور زکوۃ کی رقم اساتذہ کی تنخواہ ،مدرسہ کی تعمیر اور دیگر ضروریات میں استعمال کی جاسکتی ہے؟
1۔جن مدارس میں نابالغ بچے پڑھتے ہوں اگر ان کے والدین مالدار ہوں اور وہ ان کی کفالت کررہےہوں تو ان کو زکوۃ دینا جائز نہیں ، اگر نابالغ بچوں کے والدین مستحق زکوۃ ہوں اور وہ بچےسمجھدار ہو ں توا ان کو زکوۃ دینا جائز ہے اور وہ بچے اپنی طرف سے منتظمین جامعہ کو بھی اپنی طرف سے زکوۃ پر قبضہ کرنےکےلیے وکیل بناسکتےہیں ،اگر وہ نابالغ بچے سمجھدار نہ ہوں تو ان کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔
2و3۔اساتذہ کرام کو زکوۃ کے مال سے تنخواہ دینا جائز نہیں،اسی طرح مسجد ،مدرسہ وغیرہ کی تعمیر میں بھی زکوۃ کااستعمال جائز نہیں۔
الفتاوی الھندیهمیں ہے:
"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين، ولا يشترى بها عبد يعتق، ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
(کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، 1/ 188، ط: دارالفکر)
وفیھا أیضاً :
"نوى الزكاة بما يدفع لصبيان أقربائه أو لمن يأتيه بالبشارة أو يأتي بالباكورة أجزأه."
(کتاب الزکاۃ، الباب السابع،1/ 190، ط: دارالفکر)
رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:
''ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعاً، إلا إذا وكله الفقراء ، (قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئاً ملكوه وصار خالطاً مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع."
(کتاب الزکاۃ، 1/ 269، ط: دارالفکر)
الفتاوی الھندیه میں ہے:
"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."
(کتاب الزکاۃ، الباب الأول، 1/ 171، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"ولا يجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير كذا في التبيين. ولو كان كبيرا فقيرا جاز."
(کتاب الزکاة، الباب السابع، 1/ 189، ط: دار الفکر)
الفقه الإسلامی وأدلتهیں ہے:
"قال الحنفية: لا يجوز أداء الزكاة إلا بنية مقارنة للأداء إلى الفقير، ولو حكماً، كما لو دفع بلا نية ثم نوى، والمال في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل، ثم دفع الوكيل بلا نية،قال الحنفية: لا يجوز أداء الزكاة إلا بنية مقارنة للأداء إلى الفقير، ولو حكماً، كما لو دفع بلا نية ثم نوى، والمال في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل، ثم دفع الوكيل بلا نية،قال الحنفية: لا يجوز أداء الزكاة إلا بنية مقارنة للأداء إلى الفقير، ولو حكماً، كما لو دفع بلا نية ثم نوى، والمال في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل، ثم دفع الوكيل بلا نية."
(البا ب الرابع، المبحث الثانی، شروط صحة اداء الزکاۃ، 3/ 1810، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101427
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن