بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معدہ میں تکلیف کی وجہ سے قضا روزوں کا فدیہ دینا


سوال

ایک خاتون کی عمر 35 سال ہے، جن کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا معدہ بہت خراب ہے اور انہیں پیشاب میں انفیکشن بھی ہے، جس کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف رہتی ہے، اور ڈاکٹروں نے زیادہ پانی پینے  کا کہا ہے اور میڈیسن بھی دی ہے، لیکن ان کے پہلے کے روزے جو حاملہ ہونے اور بچے کو دودھ پلانے کے دوران چھوڑے تھے، ان کو لوٹانا بہت مشکل ہو رہا ہے، ان کا ارادہ ہے کہ آئندہ کے روزے پورے رکھیں گی، لیکن چھوڑے ہوئے روزوں کا آسان حل بتائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ خاتون جب تک روزے رکھنے پر قادر ہیں، تب تک ان پر  ان کے قضا روزوں کی قضا کرنا  ہی لازم  ہوگا، فدیہ ادا کرنا درست نہیں ہوگا،  اگر گرمی کے دنوں میں روزوں کی قضا مشکل ہو تو سردی کے چھوٹے اور ٹھنڈے دنوں میں آہستہ آہستہ  اپنے روزوں کی قضا کرتی رہیں،  وقفے وقفے سے جب آسانی ہو رکھ لیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے جو روزے رمضان المبارک میں (شرعی) عذر کی وجہ سے رہ جاتے تھے  رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہنے کی وجہ سے مجھے ان کی ادائیگی کا تب موقع ملتا تھا جب رسول اللہ ﷺ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ گویا پچھلے رمضان المبارک کے قضا روزے ادا کرتے کرتے آئندہ رمضان المبارک آجاتا تھا، لہٰذا عمومی حالات میں تو قضا میں تاخیر درست نہیں ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہواکہ معتبر عذر کی صورت میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔

ہاں اگر  وہ روزے رکھنے پر بالکل قادر نہ ہوں، اور آئندہ صحت یابی کی امید بھی نہ ہو اور ماہر ڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ اب زندگی بھر صحت کی امید نہیں ہے تو اس صورت میں ان کے لیے ہر روزے کے  بدلے ایک فدیہ (صدقہ فطر کی مقدار کے بقدر) دینے کی گنجائش ہے، لیکن فدیہ دینے کے بعد بھی دوبارہ روزہ رکھنے کی طاقت ہوگئی تو فدیہ ادا کرنا باطل ہوجائے گا اور روزوں کی قضا کرنا لازم ہوگا۔

بہرحال آپ کے بیان کے مطابق یہ خاتون وقفے وقفے سے روزے رکھ سکتی ہیں اس لیے زندگی میں  آہستہ آہستہ قضا روزے ادا کرتی رہیں، لیکن اگر مرتے دم تک  روزے قضا نہ ہوسکیں تو مرنے سے پہلے انہیں فدیہ ادا کرنے کی وصیت  کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اهـ أقول: ووجه ذلك أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته، حتى إن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياما أخر وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر، هذا ما قالوه، ومقتضاه أن غير الشيخ الفاني ليس له أن يفدي عن صومه في حياته لعدم النص ومثله الصلاة؛ ولعل وجهه أنه مطالب بالقضاء إذا قدر، ولا فدية عليه إلا بتحقيق العجز عنه بالموت فيوصي بها، بخلاف الشيخ الفاني فإنه تحقق عجزه قبل الموت عن أداء الصوم وقضائه فيفدي في حياته، ولا يتحقق عجزه عن الصلاة لأنه يصلي بما قدر ولو موميا برأسه، فإن عجز عن ذلك سقطت عنه إذا كثرت، ولايلزمه قضاؤها إذا قدر كما سيأتي في باب صلاة المريض، وبما قررنا ظهر أن قول الشارح بخلاف الصوم أي فإن له أن يفدي عنه في حياته خاص بالشيخ الفاني، تأمل". (2/74، باب قضا ء الفوائت، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں