بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مچھلیوں کے شکار کے لیے تقسیم اجرت کا طریقہ


سوال

جو مزدور مچھلیاں شکار کرنے سمندر جاتے ہیں ، ان کی اجرت مجہول ہوتی ہے ، اگر مچھلیاں وغیرہ مل جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ کچھ نہ ملنے کی صورت میں مزدوروں کو خالی ہاتھ لوٹنا  پڑتا ہے، اسی طرح تقسیمِ اجرت کا طریقہ بھی خود ساختہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ، ذیل میں تقسیمِ اجرت کی مکمل تفصیلات ذکر کی جاتی ہے۔ چھوٹی بڑی کشتیوں میں اجرت کی تقسیم کا طریقہ کا ر قدر ِ مختلف ہے۔

چھوٹی کشتی میں تقسیم ِ  اجرت کا رائج طریقۂ کار :

چھوٹی کشتیوں میں  پتی (اجرت )کی تقسیم کا رائج طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مجموعی رقم سے اخراجات کو منہا کیا جاتاہے، اس کےبعد کاروبار (کشتی )کی متعین پتی(  جو عام طور پر چھوٹی کشتیوں میں آٹھ پتی ہوتی ہیں) اور جتنے مزدور ہیں ، اس کے حساب سے پتی کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ اگر چھ مزدور ہوں ،اور کاروبارکی آٹھ   پتی ہوتی ہیں، تو کل چودہ(14) پتی ہوئیں ، جس میں سے چھ پتی مزدوروں کی ہوں گی، اور بقیہ آٹھ پتی مالکِ کشتی کاروبار کی مد میں لیتاہے، اس کےبعد مالکِ کا روبار آٹھ پتی  میں سے کچھ حصہ مثلا دوپتی ملاح کو دیتاہے، پھر ملاح اس میں سے اپنی متعین پتی (جو حسب ِ معاہدہ کشتی کے مالک اور اس کے درمیان طے پایا تھا )رکھ کر باقی مزدوروں میں تقسیم کردیتاہے۔

بڑی کشتی میں تقسیم ِاجرت کا رائج طریقہ کار:

اس میں بھی اجرت کی تقسیم کا وہی طریقہ کار ہے ،جو چھوٹی کشتی کا ہے، البتہ اس میں تھوڑا سا فرق یہ ہےکہ کاروبار(کشتی )کی پتی مزدور کی تعداد کے حساب سے ہوتی ہے، دوسرے لفطوں میں جتنے مزدورہوں گے، اتنی ہی کاروبار کی پتی ہوں گی،مثلا :اگر کشتی میں بارہ (12)مزدور گئے ہیں،توکاروبار کی بھی بارہ پتی ہوں گی۔

تقسیم کی بنیاد :

جب ماہی گیروں سے اس بارے میں دریافت کیاگیا تو بتایا گیا کہ اجرت کی تقسیم کا یہ ہمارا خود ساختہ طریقہ کار ہے، جس کاکوئی اصل وضابطہ مقرر نہیں ہے، ہر کشتی کا مالک اپنے طریقہ سے اجرت کی تقسیم کرتاہے۔

مزدور کشتی میں کس حیثیت سے جاتےہیں؟

سب مزدور اپنے خرچہ پر جاتےہیں،وہ اس طرح کہ کشتی میں جتنا بھی خورد  ونوش کا سامان وغیرہ لےجاتے ہیں ،آخر میں سمندر  سے آنے کے بعد تقسیمِ اجرت سے پہلے وہ رقم منہا کرلی جاتی ہے، اسی طرح مچھلیاں وغیرہ مل جائیں تو ٹھیک ہے، ورنہ کچھ نہ ملنے کی صورت میں  مزدوروں کو خالی ہاتھ   لوٹنا پڑتا ہے، اور مزدور کو  پیسے کی ضرورت ہو تو   مالک اسے قرضہ  کے طور پر پیسے دے دیتا ہے ، اسی طرح جس بار نقصان ہوجائے ،وہ نوٹ کر لیا جاتا ہے ، پھر اگلی مرتبہ تقسیم اجرت سے پہلے ہی تلافی کے طور پر  رقم منہا کر لی جاتی ہے ۔

تقسیم اجرت کے مذکور بالا طریقہ کے بارے میں آپ حضرات کی رائے مطلوب ہے، اگر یہ ناجائز ہے تو  اس کی  متبادل جائز صورت  ذکر فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ اجارہ کے درست و صحیح ہونے کے لیے اجرت اور مزدوری اس طور پر متعین ہونی چاہیے  جس سے باہمی نزاع اور جھگڑے کا اندیشہ نہ ہو، اگر اجرت متعین نہ ہو،  نہ فیصد سے اور نہ متعین رقم کے حساب سے تو اجارہ فاسد ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اجیر اور مزدور کو اس کے کیے کام کی اجرتِ مثل (بازار میں ایسے مزدور کو جو اجرت ملتی ہے) دینی ہوگی۔

چناں چہ صورتِ مسئولہ میں کئی خرابیاں پائی جاتی ہیں ، مثلا :

1۔۔ اجرت کی جہالت (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)

2۔۔ ایک دن کے خرچے اور اخراجات دوسرے دن کے منافع سے وصول کرنا،اس میں بھی جہالت ہے تو جہالت در جہالت ہوئی۔

3۔۔ مزدوری کا مچھلی کے پکڑنے پر موقوف ہونا، نہ پکڑنے کی صورت میں اجرت سے محروم  خالی ہاتھ لوٹنا وغیرہ۔

مذکورہ معاملہ کو  ٹھیک کرنے کے لیے یہ  طریقہ اختیار کیا  جاسکتا ہے کہ  ہر مزدور ملاح سمیت کی یومیہ مزدوری متعین کریں،  چاہے مچھلیاں ہوں یا نہ ہوں، کم ہوں یازیادہ،مچھلیاں جتنی بھی ہوں، وہ سب کی سب مالکِ کشتی کی ہوں گی،مزدوروں اور ملاح کو ان کی مقرر کردہ متعین اجرت ملے گی، پھر اگرچہ انہی مچھلیوں میں سے اجرت دی جائے، نیز ملاح کے لیےاگر اجرت اور مزدوری زیادہ مقررکی جائے تو درست ہے،  البتہ مزدوروں کا خرچہ اور اخراجات ان ہی کے ذمہ ہوں گے مالکِ کشتی پر نہیں  ہوں گے۔

اس صورت میں مزدوروں اور ملاح کو یہ فائدہ ہوگا کہ ان کو ہر دن اجرت ملے گی، کوئی دن خالی ہاتھ لوٹنا نہیں پڑےگا، جب کہ مالک کشتی کو یہ فائدہ ہوگا کہ مچھلیاں جتنی بھی شکار ہوجائیں، تو سب کی سب اسی کی ہوں گی، مزدوروں کو ان کی اجرت ہی ملے گی، لہذا اس صورت میں مزدوروں اور مالک کشتی دونوں کا فائدہ ہوگا۔

یاد رہے کہ مذکورہ صورت اختیار کرنے میں اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ شاید مزدور اور ملاح اپنی کوشش کے بقدر محنت نہیں کریں گے، جس سے مالک کشتی کا نقصان نہ ہو تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے مچھلی کی ایک متعین مقدار رکھی جائےاور یہ کہا جائے کہ مذکورہ مقدار سے زائداگر مچھلیاں  شکار ہوں تو سب کو متعین اجرت کے علاوہ اتنی رقم بطور انعام  کے دی  جائے گی۔

حديث شریف میں ہے:

" حدثني ‌بشر بن مرحوم: حدثنا ‌يحيى بن سليم، عن ‌إسماعيل بن أمية، عن ‌سعيد بن أبي سعيد، عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال الله: «ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعط أجره."

(صحیح البخاری، ‌‌کتاب البیوع، باب إثم من باع حرا، 3/ 82، رقم الحدیث: 2227 ، ط:  دار طوق النجاة - بيروت)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ثم يرد هذا العقد تارة على المنفعة وعلى العمل أخرى وفي الوجهين لا بد من إعلام ما يرد عليه العقد على وجه ‌تنقطع به المنازعة فإعلام المنفعة ببيان المدة، أو المسافة، وذكر المدة لبيان مقدار العقود عليه لا للتوقيت في العقد فإن المنافع لما كانت تحدث شيئا فشيئا فمقدارها يصير معلوما ببيان المدة بمنزلة الكيل والوزن في المقدرات، أو ببيان المسافة فإن مقدار السير والمشي يصير به معلوما وإعلام العمل ببيان محله والمعقود عليه فيه وصف يحدثه في المحل من قصارة، أو دباغة، أو خياطة فيختلف مقداره باختلاف المحل؛ ولهذا لا يتعين عليه إقامة العمل بيده إلا أن يشترط عليه ذلك فحينئذ يجب الوفاء بالشرط؛ لأنه مفيد فبين الناس تفاوت في إقامة العمل بأيديهم وكما يجب إعلام ما يرد عليه العقد يجب إعلام البدل لقطع المنازعة وقد دل عليه الحديث الذي بدأ به الكتاب ورواه عن أبي هريرة وأبي سعيد - رضي الله عنهما - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا يستام الرجل على سوم أخيه ولا ينكح على خطبته وقال: لا تناجشوا ولا تبيعوا بإلقاء الحجر ومن استأجر أجيرا فليعلمه أجره»."

(کتاب الإجارات، 15/ 75، ط: دار المعرفة بیروت)

الدر المختار میں ہے:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (‌يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 6/ 46، ط: سعید)

و فیه ایضا:

"وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض)۔۔

و في الرد تحته: قال في المبسوط: لا بد من إعلام ما يرد عليه عقد الإجارة على وجه ينقطع به المنازعة ببيان المدة والمسافة والعمل، ولا بد من إعلام البدل اهـ، وإلا كان العقد عبثا كما في البدائع، على أنه تمليك بعوض غير معلوم فعاد إلى كلامهم، وتمامه في الشرنبلالية."

(کتاب الإجارة، 6/ 4، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں