بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مچھلی بغیر ذبح کیے کیوں حلال ہے؟


سوال

مرغی ، گائے اور بکری وغیرہ کو ہم ذبح کر کے حلال کرتے ہیں، مچھلی جب پانی سے باہر آتی ہے تو ویسی ہی مرجاتی ہے ہم اسے ذبح نہیں کرتے تو وہ کیسے حلال رہتی ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں شریعتِ مطہرہ نے  مچھلی کے حلال ہونے کے لیےشرعی   ذبح کو  شرط نہیں بتایا  ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:"ہمارے لیے دومردار  اور دو خون حلال کیے گیے ہیں، دومردار  سے مراد مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون سے مراد جگر اور تلی ہیں"، اسی طرح دیگر  جانوروں  کو  اس لیے ذبح کیا جاتا ہے  کہ  ان میں جو دم مسفوح   نکل جائے اور مچھلی میں خشکی کے  جانورں کی طرح دم مسفوح نہیں ہوتا، بلکہ اس کے بدن کا اصلی مادہ پانی ہے اور پانی بالطبع پاک ہے، اس لیے ذبح کرنے کاحکم نہیں ہے۔

مسند الامام احمد بن حنبل میں ہے:

"عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌أحلت ‌لنا ‌ميتتان، ودمان. فأما الميتتان: فالحوت والجراد، وأما الدمان: فالكبد والطحال."

[مسند المكثرين من الصحابة، ج:10، ص:16، ط:مؤسسة الرسالة]

زاد المعاد میں ہے:

"فلو لم تكن هذه النصوص مع المبيحين لكان القياس الصحيح معهم، فإن الميتة إنما حرمت لاحتقان الرطوبات والفضلات والدم الخبيث فيها، والذكاة لما كانت تزيل ذلك الدم والفضلات كانت سبب الحل، وإلا فالموت لا يقتضي التحريم فإنه حاصل بالذكاة كما يحصل بغيرها، فإذا لم يكن في الحيوان دم وفضلات تزيلها الذكاة لم يحرم بالموت ولم يشترط لحله ذكاة كالجراد، ولهذا لا ينجس بالموت ما لا نفس له سائلة كالذباب والنحلة ونحوهما، والسمك من هذا الضرب، فإنه لو كان له دم وفضلات تحتقن بموته لم يحل بموته بغير ذكاة، ولم يكن فرق بين موته في الماء وموته خارجه، إذ من المعلوم أن موته في البر لا يذهب تلك الفضلات التي تحرمه عند المحرمين إذا مات في البحر. ولو لم يكن في المسألة نصوص لكان هذا القياس كافيا. والله أعلم."

[فصل في هديه في الغزوات والجهاد، جواز أكل ميتة البحر، ج:3، ص:477، ط:دار ابن حزم]

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مچھلی دوسرے جانوروں کی طرح نہیں ہے، اس میں دم مسفوح نہیں ہے، اس کے بدن کا اصلی مادہ پانی ہے اور پانی بالطبع پاک ہے؛ لہذا مچھلی کی روح جدا ہوجانے سے اس پر ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگے گا، اس لیے ذبح کرنا ضروری نہیں ہے۔"

(کتاب الذبائح، ج:10، ص:73، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں