بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مشینی ذبیحہ کا حکم


سوال

یہاں ایڈیلیڈ آسٹریلیا میں حلال گوشت کی دکانوں میں مشینی ذبیحہ کی چکن اور ہاتھ سے ذبح کی ہوئی چکن دونوں ملتی ہیں۔ اور قیمہ بنانے والی مشین سے وہ مشینی ذبیحہ والی چکن کا بھی قیمہ بناتے ہیں اور بکرے گائے کا بھی۔ تو بکرے کا قیمہ دکان سے لے سکتے ہیں جبکہ اسی مشین سے مشینی ذبیحہ والی چکن کا قیمہ بھی بنا ہوتا ہے؟

جواب

جانور کو ذبح  کرنے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ ذبح کرنے والاعاقل ، بالغ ہو، اور مسلمان یا  اہلِ کتاب میں سے یہودی یا عیسائی ہو (بشرط یہ ہے کہ وہ  اپنے مذہب کے اصول، پیغمبر اور کتبِ سماویہ کو مانتاہو،  بے دین  نہ ہو) اور وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، اور ذبحِ اختیاری میں یہ بھی ضروری ہے کہ گلے کی چاروں رگیں (کھانے کی نالی، سانس کی نالی اور خون کی نالیوں) یا ان میں سے اکثر کٹ جائیں، اور  ذبح کرنے والا خود جانور کو  تیز دھار آلہ سے ذبح کرے، (اگر آلہ کی تیزی کے بجائے اس کے دباؤ سے  دم گھٹنے کی وجہ سے جانور مرجائے تو وہ مردار ہوگا)۔مروجہ مشینی ذبیحہ میں یہ سب شرائط نہیں پائی جاتیں، لہذا مشین کے ذریعہ ذبح کرنا خلافِ شرع ہے، اور مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے۔لہذا    مشینی ذبیحہ   والا گوشت  جس مشین  سے گزرا ہو اور اسکے اجزاء اس میں باقی ہوں تو اسی مشین سے حلال گوشت کا قیمہ  بنوانا  جائز نہیں ۔

  فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"الذكاة نوعان: اختيارية واضطرارية، أما الاختيارية فركنها الذبح فيما يذبح من الشاة والبقر، والنحر فيما ينحر وهو الإبل عند القدرة على الذبح والنحر، ولا يحل بدون الذبح أوالنحر، والذبح هو فري الأوداج ومحله ما بين اللبة واللحيين، والنحر فري الأوداج ومحله آخر الحلق ۔۔۔وفي الجامع الصغير ولا بأس بالذبح في الحلق كله أسفله وأوسطه وأعلاه، وفي فتاوى أهل سمرقند قصاب ذبح الشاة في ليلة مظلمة فقطع أعلى من الحلقوم أو أسفل منه يحرم أكلها؛ لأنه ذبح في غير المذبح وهو الحلقوم، فإن قطع البعض، ثم علم فقطع مرة أخرى الحلقوم قبل أن يموت بالأول فهذا على وجهين: أما إن قطع الأول بتمامه أو قطع شيئا منه ففي الوجه الأول لا يحل؛ لأنه لما قطع الأول بتمامه كان موتها من ذلك القطع أسرع من موتها من الثاني، وفي الوجه الثاني يحل، كذا في الذخيرة والمحيطين.وأما الاضطرارية فركنها العقر وهو الجرح في أي موضع كان وذلك في الصيد، وكذلك ما ند من الإبل والبقر والغنم بحيث لا يقدر عليها صاحبها لأنها بمعنى الصيدوإن كان مستأنسا ۔۔۔(وأما شرائط الذكاة فأنواع) : بعضها يعم الذكاة الاختيارية والاضطرارية وبعضها يخص أحدهما دون الآخر، أما الذي يعمهما فمنها أن يكون عاقلا فلا تؤكل ذبيحة المجنون والصبي الذي لا يعقل، فإن كان الصبي يعقل الذبح ويقدر عليه تؤكل ذبيحته، وكذا السكران. (ومنها) أن يكون مسلما أو كتابيا فلا تؤكل ذبيحة أهل الشرك والمرتد ... (ومنها) التسمية حالة الذكاة عندنا أي اسم كان، وسواء قرن بالاسم الصفة بأن قال: الله أكبر، الله أعظم، الله أجل، الله الرحمن، الله الرحيم، ونحو ذلك، أو لم يقرن بأن قال: الله، أو الرحمن، أو الرحيم، أو غير ذلك، وكذا التهليل والتحميد والتسبيح وسواء كان جاهلا بالتسمية المعهودة أو عالما وسواء كانت التسمية بالعربية أو بالفارسية أو أي لسان كان وسواء كان لا يحسن العربية أو يحسنها، كذا روى بشر عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، ولو أن رجلا سمى على الذبيحة بالرومية أو بالفارسية وهو يحسن العربية أو لا يحسنها أجزأه ذلك عن التسمية. ومن شرائط التسمية أن تكون التسمية من الذابح حتى لو سمى غيره والذابح ساكت وهو ذاكر غير ناس لا يحل. (ومنها) أن يريد بها التسمية على الذبيحة، فإن أراد بها التسمية لافتتاح العمل لا يحل۔۔۔ (ومنها) تجريد اسم الله تعالى من غيره، وإن كان اسم النبي. (ومنها) أن يقصد بذكر اسم الله تعظيمه على الخلوص لا يشوبه معنى الدعاء، حتى لو قال: اللهم اغفر لي لم يكن ذلك تسمية؛ لأنه دعاء والدعاء لا يقصد به التعظيم المحض، وأما وقت التسمية فوقتها على الذكاة الاختيارية وقت الذبح لا يجوز تقديمها عليه إلا بزمان قليل لا يمكن التحرز عنه، وأما وقت الاضطرارية فوقتها وقت الرمي والإرسال."

(كتاب الذبائح،الباب الأول في ركنہ وشرائطہ وحكمہ وأنواعہ،5 /282۔283،ط:دارلفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101845

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں