میرے زیرِ ناف کے کپڑے میں مذی لگی ہوئی تھی قلت وقت کی بنا پر میں نے دھویا نہیں اور اس کپڑے کو غسل خانے میں ہی چھوڑ دیا جب گھر آیا تو دیکھا کہ ہماری والدہ نے اسے واشنگ مشین میں دوسرے کپڑوں کے ساتھ دھو دیا ہے، اب نہ تو شرم کی وجہ سے گھر پر اس بات کو بتا سکتا ہوں نہ ہی مجھے کپڑے پر لگی مذی کی مقدار کا علم ہے اور اتفاق یہ کہ میرے دوسرے زیرِ ناف کپڑے کا رنگ بھی وہی ہے جو اس کا ہے اور دونوں خلط ملط ہو گئے ہیں۔ گھر والوں کو بتانے میں میں پورے طور پر قاصر ہوں۔ امید ہے آپ صحیح رہنمائی فرمائیں گے ۔
صورتِ مسئولہ میں اول تو کپڑوں کا رنگ ایک جیسا ہونے کی وجہ سے اس بات پر شک ہے کہ واشنگ مشین میں کونسا کپڑا ناپاک تھا، اسی طرح اس بات پر بھی شک ہے کہ مذی کی مقدار حدِ نجاست کو پہونچی تھی یا نہیں، تاہم اگر مذی کی مقدار نجاست کی معافی کو تجاوز کرگئی تھی اور وہ ناپاک کپڑا دیگر پاک کپڑوں کے ساتھ مشین میں شامل ہوگیا تو پاک اور ناپاک کپڑے جب ایک ساتھ دھولیے تو پاک اور ناپاک کپڑے مل کر سب ناپاک ہوگئے، اور ناپاک کپڑوں کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ پاک پانی سے دھویا جائے، اور ہر مرتبہ اچھی طرح نچوڑا جائے کہ پانی ٹپکنا بند ہوجائے یا بہتے پانی میں اتنی دیر تک دھویا جائے کہ ناپاکی کا اثر بالکل زائل ہوجائے، یہ ضروری ہے۔ لہذا اگر پاک اور ناپاک کپڑوں کو تین مرتبہ صاف پانی سے دھوکر نچوڑا گیا یا بہتے پانی میں اتنی دیر تک دھویا کہ ناپاکی کا اثر بالکل زائل ہوگیا تو سب کپڑے پاک کے حکم میں ہوگئے ہیں، لہذا اب اس کپڑے کے متعلق پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.
... أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق".
(ج:1، ص:331، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101432
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن