ایک مشتری نے بائع سے ایک بھینس خریدی، 55000 ہزار روپے میں سودا ہوا، اور مشتری نے 51000 ہزار روپے نقد ادا کیے، اور چار ہزار ادھار کر لیے، اب بھینس اس طرح کی نہیں ہے جس طرح کی بائع نے بتائی تھی، یعنی دودھ وغیرہ اتنا نہیں ہے جتنا بائع نے بتایا تھا اور اب مشتری بھینس کو لے کر بائع کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائی یہ تو صحیح نہیں نکلی، تو نے دھوکا کیا ہے میرے ساتھ، اور مشتری کہتا ہے کہ اب ایسا کر لیں کہ 55000 ہزار کا جو سودا ہوا تھا اس میں سے مجھے 7000 ہزار کم دےدیں، اور اپنی بھینس لے لیں، بائع منع کرتا ہے، اب وہ مشتری بھینس کو گھاٹے کے ساتھ کہیں اور بیچ دیتا ہے اور اس پہلے بائع کے جو چار ہزار روپے روکے ہوۓ تھے، کیایہ روپیہ بائع کو دینا چاہیے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ عقدِ بیع کے وقت مبیع (فروخت ہونے والی چیز) کو خریدنے پر رغبت دلانے کے لیے جن اوصاف اور معیار کو بیان کیا جاتا ہے، مبیع میں ان اوصاف اور معیار کا موجود ہونا ضروری ہے، اگر مبیع بیان کردہ اوصاف اور معیار کے مطابق نہیں ہے تو مشتری (خریدار) کو اختیار ہوتا ہے، چاہے تو وہ بیع (خرید وفروخت کا معاملہ) کو فسخ کرکے مذکورہ مبیع نہ لے، اور چاہے تومبیع کو کل قیمت (طے شدہ قیمت) پر لے لے، یہ نہیں ہوسکتا کہ مبیع کو اپنے پاس رکھ کر قیمت میں کمی کروائے۔
بصورتِ مسئولہ مذکورہ مبیع (خریدی ہوئی بھینس) بیان کردہ اَوصاف و معیار کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں مشتری (سائل) کو اختیار تھاکہ مبیع واپس کرکے اپنی دی ہوئی پوری رقم واپس لے لیتا، لیکن جب مشتری نے مذکورہ مبیع (بھینس) کسی اور پر فروخت کردی، تو اب مشتری اس کی قیمت میں کمی نہیں کرواسکتا، لہذا مشتری کے ذمے بائع کے باقی ماندہ پیسوں (یعنی چارہزار روپے) کا لوٹانا ضروری ہے۔
تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
"( سُئِلَ ) فِي رَجُلٍ اشْتَرَى مِنْ آخَرَ نِصْفَ فَرَسٍ ذَكَرَ الْبَائِعُ أَنَّهَا مُعْتَقِيَّةُ الْجِنْسِ وَهُوَ جِنْسٌ مَشْهُورٌ بِالْجَوْدَةِ بِثَمَنٍ مَعْلُومٍ لَوْ لَمْ تُوصَفْ بِذَلِكَ لَمَّا اشْتَرَاهَا بِهَذَا الثَّمَنِ ثُمَّ ظَهَرَ أَنَّهَا مِنْ جِنْسٍ آخَرَ وَلَا تُسَاوِي هَذَا الثَّمَنَ وَبَيْنَ الثَّمَنَيْنِ تَفَاوُتٌ فَاحِشٌ وَيُرِيدُ رَدَّهَا بَعْدَ ثُبُوتِ مَا ذُكِرَ بِالْوَجْهِ الشَّرْعِيِّ فَهَلْ لَهُ ذَلِكَ ؟ ( الْجَوَابُ ) : نَعَمْ وَأَفْتَى بِذَلِكَ الْعَلَّامَةُ الشَّيْخُ إسْمَاعِيلُ وَفِي فَتَاوَى قَارِئِ الْهِدَايَةِ فِيمَنْ اشْتَرَى مِنْ آخَرَ فَرَسًا ذَكَرَ الْبَائِعُ أَنَّهَا مِنْ نَسْلِ خَيْلِ فُلَانٍ لِفَرَسٍ مَشْهُورَةٍ بِالْجَوْدَةِ ثُمَّ تَبَيَّنَ كَذِبُهُ هَلْ لَهُ الرَّدُّ أَمْ لَا فَأَجَابَ إذَا اشْتَرَاهَا بِنَاءً عَلَى مَا وَصَفَ لَهُ بِثَمَنٍ لَوْ لَمْ يَصِفْهَا بِهَذِهِ الصِّفَةِ لَا تُشْتَرَى بِذَلِكَ الثَّمَنِ وَالتَّفَاوُتُ بَيْنَ الثَّمَنَيْنِ فَاحِشٌ وَهِيَ لَا تُسَاوِي مَا اشْتَرَاهَا بِهِ لَهُ الرَّدُّ إذَا تَبَيَّنَ خِلَافُ ذَلِكَ ."
(كتاب البيوع، باب الخيارات، ج:1، ص:273، ط:مكتبة رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144207200328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن