بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مبیع اگر بائع کے پاس ہلاک ہوجائے تو اس کا تاوان کس پرآئے گا؟


سوال

 میں نے عبداللہ کو ایک بکری 30 ہزار روپیہ میں فروخت کی، عبداللہ نے مجھے 15 ہزار روپے ایڈوانس دے کر کہا کہ بقایا رقم کچھ وقت کے بعد  دوں گا اور بکری بھی کچھ وقت کے بعد لے  لوں گا، اب وہ بکری بیمار ہوگئی اور اس کی موت واقع ہو گئی ۔سوال یہ ہے کہ اب بقایا رقم کس کے ذمہ میں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر بیچی ہوئی  چیز كا قبضہ خریدار کو نہیں دیا گیا ہو  اور وہ  بیچنے والے کے پاس ہلاک ہوجاتی ہے تو  شرعًا وہ معاملہ ختم ہوجاتا ہے اور اس چیز کا نقصان وتاوان  بیچنے والے کے ذمہ  پر آتا ہے، اور اگر خریدار نےرقم ادا کی ہو تواس کو   واپس کرنا بھی ضروری ہے؛  لہذا صورتِ مسئولہ  میں بکری  چوں کہ سائل کے پاس ہلاک ہوگئی ہے؛ اس لیے  اس کا تاوان بھی سائل پر آ ئے گا، عبد اللہ پر نہیں آئے گا یعنی یہ نقصان سائل کا ہے اور نیز سائل نے جو پندرہ ہزار (15000)  روپے ایڈوانس لیے ہیں  وہ  بھی عبد اللہ کوواپس کرنا ضروری ہے، اس کو روکنا حرام ہے۔

مرشد الحیران میں ہے:

"إذا هلك المبيع عند البائع بفعله أو بفعل المبيع أو بآفة سماوية بطل البيع ويرجع المشتري على البائع بالثمن إن كان مدفوعاً".

(مرشد الحيران: كتاب البيع، باب في تسليم المبيع ، الفصل الثاني في حق حبس المبيع لقبض الثمن وفي هلاك المبيع  (1/ 59)، رقم المادة (366)، ط. المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق، الطبعة الثانية: 1308 هـ =1891م)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى بقرة، فقال للبائع: سقها إلى منزلك حتى أجيء خلفك إلى منزلك وأسوقها إلى منزلي، فماتت البقرة في يد البائع، فإنها تهلك من مال البائع، فإن ادعى البائع تسليم البقرة كان القول قول المشتري مع يمينه. اشترى دابة مريضة في إصطبل البائع، فقال المشتري: تكون هنا الليلة، فإن ماتت ماتت لي فهلكت، هلكت من مال البائع لا من مال المشتري كذا في فتاوى قاضي خان".

(الفتاوى الهندبة: كتاب البيوع، الباب الرابع في حبس المبيع بالثمن  ، الفصل الثاني في تسليم المبيع وفيما يكون قبضا وفيما لا يكون قبضا (3/ 20)، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں