ایک ایپ پر کسی نے ایک چیز رکھی بیچنے کے لیے اور پھر اس نے لکھا کہ کوئی بیچے کسی اور ذریعے سے تو میں اس کو 10فیصد منافع دوں گا، حا لاں کہ اس نے ابھی تک اس کو خریدا نہیں ہے، صرف اس کی تصویر لے کر رکھی ہے ایپ پر تو اس کے 10 فیصد کا کیا حکم ہوگا اور اگر اس نے یہ بھی لکھا ہو کہ جو بھی زیادتی رکھ کر فروخت کروگے تو زیادتی تمہاری ہوگی، مثلاً: 100 کی چیز 150 کی فروخت کرے تو 50 کا نفع اس کا ہوگاحالاں کہ وہ چیز ابھی ملکیت میں نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شرعاً خرید وفروخت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مبیع بیچنے والے کی ملکیت میں ہو ،اگر مبیع بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار، تصویر دکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت یا قبضہ میں"مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت یا وکیل کے قبضے میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ طریقہ سے خریدوفروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
اور 100 روپے کی چیز 150 روپے میں فروخت کر کے 50 روپے نفع خود لینا یہ بھی جائز نہیں ، کیوں کہ بیچنے والے نے اس چیز کو خرید کر قبضہ نہیں کیا اور اس چیز کا مالک نہیں بنا تو نفع کا کیسے مالک بنے گا؟
حدیث میں ہے :
"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك ."
(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:5،ص:362،دارالرسالۃ العالمیۃ)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (لا تبع ما ليس عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."
(باب المنہی عنہا من البیوع،ج:5،ص:1937،دارالفکر)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :
"وأما نهيه عن بيع ما لم يقبض يعني في المنقولات، وأما نهيه عن بيع ما ليس عنده فهو أن يبيع ما ليس في ملكه، ثم ملكه بوجه من الوجوه فإنه لا يجوز إلا في السلم فإنه رخص فيه."
(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:1،ص:203،المطبعۃ الخیریۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100769
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن