بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مبیع میں زیادتی بائع کا حق ہوگا


سوال

میں نے دوکان سے دو تکے خریدے تھے، غلطی سے دکان دار نے تین دے دیے یہ گھر آکر پتہ چلا پیسے میں نے دو تکوں کے ادا کیے تھے، اب اس کا کیا حکم ہے؟ جو اضافی تکہ دیا تھا اس کے پیسے ادا کرنے ہوں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  سائل نے دو تکوں کی قیمت ادا کی ہے،اور دوکان دار نے غلطی سے تین دیے ہیں اس لیے سائل کو چاہیے کہ اضافی تکہ دوکان دار کو واپس کردے،اور اگر واپس نہیں کرسکتا تو  اس کی قیمت  دوکان دار کوادا کر دے۔

البحرالرائق میں ہے:

"وإن زاد شيء عليه ‌فهو ‌للبائع؛ لأن البيع وقع على مقدار معين والقدر ليس بوصف وفي غاية البيان."

(كتاب البيع، اشترى عنب كرم على أنه ألف من فظهر أنه تسعمائة، ج:5، ص:311، ط:دار الكتاب الإسلامي)

شرح المجلہ میں ہے:

"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي و إن أخذ ولو علی ظن أنہ ملکه وجب علیه ردہ عینا إن کا ن قائما وإلا فیضمن قیمته إن کان قیمیا."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:97، ج:1، ص:51، ط: رشیدية) 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں