میں جانوروں کا کاروبار کرتا ہوں۔ میرے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے مجھے کچھ جانوروں کا آرڈر دیا، جانوروں کا وزن اور اوصاف طے ہوئے، قیمت مقرر ہوئی، اور یہ بات طے پائی کہ جانور ان کی جگہ پر پہنچانا ہوں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ جیسے جیسے جانور میرے پاس آتے جائیں گے، میں آپ کو دیتا رہوں گا۔
کچھ دن بعد میرے پاس کچھ جانور آگئے، اور وہ لوگ میرے باڑے پر آئے، جانوروں کا وزن کیا اور کہا کہ یہ ہم ابھی لے جائیں گے، لیکن ہم نے جن مزدور سے جانوروں کو لے جانے کے لیے بات کی تھی وہ اس وقت موجود نہیں تھے، تو ان لوگوں نے خود گاڑی کا بندوبست کیا اور جانور لے گئے۔ کچھ دن بعد دوسری گاڑی میں بھی جانور لے گئے۔ پھر اسی طرح تیسری گاڑی کے جانوروں کا وزن کیا اور باڑے سے لے گئے۔ ہمارا مزدور گاڑی میں ان کے ساتھ نہیں تھا، گاڑی میں موجود لوگوں میں سے ایک انہی کا بندہ تھا اور جانوروں کے ساتھ موجود تھا۔
راستے میں ایک جانور گاڑی میں گر گیا۔ اس بندے نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کیا میں اسے ذبح کر دوں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ آپ کا جانور ہے، آپ کی مرضی ہے، جو کرنا ہے کرو۔ پس وہ جانور مر گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس جانور کا نقصان کس کے ذمّے ہوگا؟
واضح رہے کہ خرید و فروخت کے معاملے میں عاقدین میں سے کسی ایک کا دوسرے پر مقتضائے عقد کے خلاف شرط لگانا شرعًا درست نہیں، اور اس سے خرید و فروخت کا معاملہ فاسد ہوجاتا ہے۔ تاہم ایسے عقود میں اگر مبیع (خریدی گئی چیز) خریدار کے حوالہ کر دی جائے، تو مبیع فروخت کنندہ کی ملکیت اور اس کے ضمان سے نکل کر خریدار کی ملکیت اور اس کی ضمان میں داخل ہوجاتی ہے، چنانچہ اگر مبیع خریدار کے پاس ہلاک ہوجائے، تو اس کا نقصان خریدار ہی کو اٹھانا پڑتا ہے اور اس پر ہلاک شدہ مبیع کی مارکیٹ قیمت لازم ہوتی ہے، اور فروخت کنندہ اس نقصان سے بری الذمّہ ہوتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دورانِ عقد عاقدین کا یہ طے کرنا کہ فروخت کنندہ خریدے گئے جانور خریدار کی جگہ پہنچائے گا، اس شرط کی وجہ سے خریداری کا یہ معاملہ فاسد ہوگیا تھا، اور ضروری تھا کہ دونوں فریق اس معاملے کو ختم کر دیتے، اس کے باوجود جب خریدار مطلوبہ جانور اپنی تحویل میں لے کر گاڑی میں لے گیا، تو وہ جانور فروخت کنندہ کی ملکیت و ضمان سے نکل کر خریدار کی ملکیت و ضمان میں داخل ہوچکا تھا، پس جب مذکورہ جانور خریدار کی تحویل میں ہلاک ہوا ہے، تو اس ہلاکت کا نقصان بھی شرعًا خریدار ہی کے ذمہ ہے، لہٰذا اب خریدار ہلاک شدہ جانور کی طے شدہ قیمت کے بجائے اس کی مارکیٹ قیمت ادا کرنے کا پابند ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد (كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري.
وفي الرد: (قوله ولا بيع بشرط) شروع في الفساد الواقع في العقد بسبب الشرط «لنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط».... (قوله لا يقتضيه العقد ولا يلائمه) قال في البحر. معنى كون الشرط يقتضيه العقد أن يجب بالعقد من غير شرط، ومعنى كونه ملائما أن يؤكد موجب العقد، وكذا في الذخيرة. وفي السراج الوهاج: أن يكون راجعا إلى صفة الثمن أو المبيع كاشتراط الخبز والطبخ والكتابة. اهـ ما في البحر (قوله وفيه نفع لأحدهما) الأولى قول الزيلعي وفيه نفع لأهل الاستحقاق، فإنه أشمل وأخصر لشموله ما فيه نفع لأجنبي، فيوافق قوله الآتي ولا نفع فيه لأحد ولاستغنائه عن قوله أو لمبيع.
[تنبيه] المراد بالنفع ما شرط من أحد العاقدين على الآخر."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب في البيع بشرط فاسد، ج:5، ص:85، ط:ايج ايم سعيد)
فتح القدير میں ہے:
"قال (وإذا قبض المشتري المبيع في البيع الفاسد بأمر البائع) صريحا أو دلالة كما سيأتي (وفي العقد عوضان كل منهما مال ملك المبيع ولزمته قيمته) ومعلوم أنه إذا لم يكن فيه خيار شرط؛ لأن ما فيه من الصحيح لا يملك بالقبض فكيف بالفاسد، ولا يخفى أن لزوم القيمة عينا إنما هو بعد هلاك المبيع في يده، أما مع قيامه في يده فالواجب."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، فصل في أحكام البيع الفاسد، ج:6، ص:459، ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144701100032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن