بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور بہن کی کفالت کس پر ہوگی؟


سوال

ہم بہن بھائی اپنے والد صاحب کی پراپرٹی میں رہتے ہیں اس گھر میں ہمارے چچا کا بھی آدھا حصہ ہے ہمارے چچا نے اپنا آدھا حصہ کسی کوبیچ دیا ہے .جسکی وجہ سے گھر میں پارٹیشن ہونا ہے.ہماری ایک بہن شدید علیل ہے جوکے ہمارے ساتھ قیام پذیرہے جسکی تیمار داری میری اہلیہ کرتی ہے اب جب کہ مکان میں پارٹیشن ہونے جارہا ہے تو مجھے مجبوراً کہیں رینٹ کے مکان میں شفٹ ہونا ہے. میرا سوال ہے کہ اب جب میں مکان چھوڑ دوں گا تو میری علیل بہن کا خیال رکھنا کس کی ذمہ داری ہوگی، جبکہ میرے والد صاحب ابھی حیات ہیں اور ابھی وہ رینٹ پے رہتے ہیں وہ اپنے گھر میں شفٹ ہو جائیں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بہن کی ذمہ دار ی  آپ کے والد صاحب کی ہے، اگر عورت ذات ہونے کی وجہ سے والد صاحب کسی وجہ سے بیٹی کی ذمہ داری نہ اٹھا سکیں یا وہ کوئی ملازمہ نہیں رکھ سکتے تو پھر یہ ذمہ داری آپ کی ہوگی، اس دوران اگر آپ کی اہلیہ یہ ذمہ داری اٹھا لیں تو یہ باعث اجر ہے اور وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت میں کامیابی کی امید رکھیں،اس دوران اگر بغیر کسی نیت و ارادہ کے کبھی  سستی ہوجائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔

الدر المختار میں ہے:

"(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن...... وفی الرد: قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة."

(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الطلاق، باب النفقۃ،614/3، سعيد)

وفيه ايضا:

"(و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة)  كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرا) ....... (بقدر الإرث) - {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233]- (و) لذا (يجبر عليه) . ثم فرع على اعتبار الإرث بقوله (فنفقة من) أي فقير (له أخوات متفرقات) مو سرات (عليهن أخماسا) ولو إخوة متفرقين فسدسها على الأخ لأم والباقي على الشقيق (كإرثه) وكذا لو كان معهن أو معهم ابن معسر؛ لأنه يجعل كالميت ليصيروا ورثة...........

و فی الرد....("قوله كعمى إلخ) أفاد أن المراد بالزمانة العاهة كما في القاموس. وفي الدر المنتقى أن الزمانة تكون في ستة: العمى وفقد اليدين أو الرجلين أو اليد والرجل من جانب والخرس والفلج. اهـ ....... قوله وعته) بالتحريك: نقصان العقل ....... (قوله بقدر الإرث) أي تجب نفقة المحرم الفقير على من يرثونه إذا مات بقدر إرثهم منه."

(الدر المختار مع رد المحتار،  كتاب الطلاق، باب النفقۃ، 3 /  629،627، سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب ‌بقدر ‌الإرث لو موسرا) يعني تجب النفقة لكل ذي رحم محرم إذا كان فقيرا عاجزا عن الكسب لصغره أو لأنوثته أو لعمى أو لزمانة، وكان هو موسرا لتحقق العجز بهذه الأعذار ، والقدرة عليه باليسار، ويجب ذلك ‌بقدر ‌الإرث لقوله تعالى {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233] فجعل العلة هي الإرث فيتقدر الوجوب بقدر العلة، وفي قراءة ابن مسعود وعلى الوارث ذي الرحم المحرم، وهي مشهو ر ة فجاز التقييد بها، ويجبر على ذلك لأنه حق مستحق عليه."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ،  3 /  64، ط: المطبعۃ الكبری الأميریۃ،القاهرۃ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں