اگر کسی شخص نے دو سال پہلے مخلوط تعلیم گاہ سے علم حاصل کیا، ابھی وہ مخلوط تعلیم گاہ نہیں جاتا ہے، گھر ہی میں رہ کر پڑھتے ہیں، کیا اِس شخص کی امامت میں کوئی کراہت ہے؟
کسی ایسے ادارے میں پڑھنا جائز نہیں جہاں مخلوط ماحول میں تعلیم دی جاتی ہو؛ کیوں کہ اس میں نامحرم عورتوں سے میل جول رکھنے کی نوبت آتی ہے، لہٰذا ایسا امام جو مخلوط تعلیمی نظام والے ادارے میں پڑھتا ہو اس کو امام بنانا اور اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر کوئی شخص ماضی میں ایسے مخلوط نظام میں پڑھا ہو لیکن اب نہیں پڑھتا، اور سابقہ عمل سے توبہ کر کے اس کو ترک کر چکا ہو تو ایسی صورت میں اس کو امام بنانے میں کوئی کراہت نہیں ہو گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويكره إمامة عبد) ... (وفاسق).
(قوله: وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك، كذا في البرجندي إسماعيل".
(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، 1/ 559 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن