بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماضی کی کسی بات پر ایمان سے محروم ہونے کی قسم کھانے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے مجھے ایک بات کے بارے میں کہا کہ  اگر آپ نے یہ بات کی ہے اور آپ کہتی ہیں کہ میں نے نہیں کی تو آپ ایمان سے خالی جائیں۔ میں نے کہا ہاں۔ اور اگر میں نے نہیں کی اور آپ کہتے ہیں کہ میں نے وہ بات کی ہے تو آپ ایمان سے خالی جائیں ۔اس نے کہا ہاں۔ اب ایک تو ضرور جھوٹا ہوگا۔ تو اس سے کیا لازم آتا ہے؟  نکاح تو نہیں ٹوٹتا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے اور آپ کے شوہر کے جملے قسم کھانے کے حکم میں ہے، آپ دونوں میں سے جو بھی جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہوگا تو اسے جھوٹی قسم کھانے کا سخت گناہ ملے گا ، البتہ اگر آپ نے مذکورہ بات نہ کہی ہو اور شوہر کو یہ غلط فہمی ہورہی ہو کہ آپ نے یہ بات کہی ہے تو ایسی صورت میں جھوٹی قسم کھانے کا گناہ تو نہیں ملے گا لیکن اس طرح بات بات پر قسم کھانا شریعتِ مطہرہ میں ناپسندیدہ ہے۔

بہرحال اگر آپ دونوں میں سے کسی نے جانتے بوجھتے یہ جھوٹی قسم کھائی ہو تو اس نے انتہائی سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر توبہ و استغفار لازم ہے، لیکن اس قسم کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، البتہ ایسی صورت میں احتیاطاً تجدیدِ  ایمان اور تجدیدِ نکاح (دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول ) کرلینا بہتر ہے۔ آئندہ اس قسم کی قسمیں  اٹھانے  سے  بالکل اجتناب کریں۔

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ:  یوں کہا اگر فلانا کام کروں تو بے ایمان ہو کر مروں مرتے وقت ایمان نہ نصیب ہو بے ایمان ہو جاؤں یا اس طرح کہا اگر فلانا کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہو گئى اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا اور ایمان نہ جائے گا۔"

(حصہ سوم ، ص: 145، قسم کھانے کا بیان، ط: توصیف پبلیشر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال: شخصے حلف کرد کہ بر زید ظلم وحق تلفی او نخواہم کرد اگر کنم پس من کافر و از شفاعت شفیع المذنبین بریم، پس اگر بر زید ظلم وحق تلفی او کند بموجب یمین خود کافر گرد و از شفاعت شفیع المذنبین بروخواہد شد یا نہ؟

(الجواب) این قسم ست کہ بصورتِ حنث کفارہ بر لازم شود، درکفر او بصورت حنث اختلاف است واضح انست کہ کافر نہ شود۔"

(12 /35، باب الیمین، ط: دارالاشاعت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و لو قال: إن فعل كذا ‌فهو ‌يهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء عن الإسلام أو كافر أو يعبد من دون الله أو يعبد الصليب أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا والقياس أنه لا يكون يمينا وهو قول الشافعي. وجه القياس أنه علق الفعل المحلوف عليه بما هو معصية فلا يكون حالفا كما لو قال إن فعل كذا فهو شارب خمرا أو آكل ميتة.

وجه الاستحسان أن الحلف بهذه الألفاظ متعارف بين الناس فإنهم يحلفون بها من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير ولو لم يكن ذلك حلفا لما تعارفوا لأن الحلف بغير الله تعالى معصية فدل تعارفهم على أنهم جعلوا ذلك كناية عن الحلف بالله - عز وجل - وإن لم يعقل.

وجه الكناية فيه كقول العرب لله علي أن أضرب ثوبي حطيم الكعبة إن ذلك جعل كناية عن التصدق في عرفهم وإن لم يعقل وجه الكناية فيه كذا هذا، هذا إذا أضاف اليمين إلى المستقبل فأما إذا أضاف إلى الماضي بأن قال هو يهودي أو نصراني إن فعل كذا لشيء قد فعله فهذا يمين الغموس بهذا اللفظ ولا كفارة فيه عندنا لكنه هل يكفر؟ لم يذكر في الأصل وعن محمد بن مقاتل الرازي أنه يكفر لأنه علق الكفر بشيء يعلم أنه موجود فصار كأنه قال هو كافر بالله وكتب نصر بن يحيى إلى ابن شجاع يسأله عن ذلك فقال لا يكفر وهكذا روي عن أبي يوسف أنه لايكفر و هو الصحيح؛ لأنه ما قصد به الكفر و لا اعتقده و إنما قصد به ترويح كلامه و تصديقه فيه و لو قال: عصيت الله إن فعلت كذا أو عصيته في كل ما افترض علي فليس بيمين؛ لأن الناس ما اعتادوا الحلف بهذه الألفاظ."

(كتاب الأيمان، فصل في ركن اليمين بالله تعالى، 3/ 8، ط:  دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں