بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو غسل دیتے وقت قبلہ کی طرف پیر کرنے کا حکم


سوال

قبلہ  کی طرف پاؤں کرنا گناہ ہے ،  پھر مردے کو غسل دینے کے دوران اس کے پاؤں کو قبلہ کی طرف کیوں کرتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قبلہ کی طرف پاؤ ں پھیلانا خلافِ ادب ہے، اگر بلا عذر قصداً واراداۃً ایسا کیا جائے تو مکروہِ تحریمی ہے، اور مکروہِ تحریمی کا ارتکاب گناہ ہے،البتہ اگر قصداً یا  تساھلاً( معمولی اور ہلکا سمجھتے ہوئے) نہ ہو تو پھر گناہ نہیں، البتہ خلافِ ادب ضرور ہے، اور میت کو غسل دیتے وقت جس طرح سہولت اور آسانی ہو لٹاسکتے ہیں،  بعض نے یہ کہا ہےکہ  قبلہ کی طرف منہ کر کے عرضًا لٹا دیں، جیسا کہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور بعض نے کہا کہ قبلہ کی طرف لمبائی میں لٹادیں،  اس صورت میں منہ قبلہ کی طرف ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔

اس تفصیل کے بعد صورتِ مسئولہ میں مذکورہ اعتراض دوسری صورت (قبلہ کی طرف لمبائی میں لٹانا جس میں پیر اور منہ قبلہ کی طرف ہوں) پر وارد ہوتا ہے، لیکن اس میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ کیوں کہ  اس صورت میں قبلہ کی طرف پیر کرنا مقصود نہیں ہوتا بل کہ مقصود تو قبلہ کی طرف منہ کرنا ہوتا ہے، لہذا ضرورت کی وجہ سے اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

ولم یبین في الکتاب کیفیة وضع التخت إلی القبلة طولا أو عرضا، فمن أصحابنا من اختار الوضع طولا کما یفعل في مرضه إذا أراد الصلاة بالإیماء، ومنهم من اختار الوضع عرضا کما یوضع في القبر، قال شمس الأئمة السرخسی: الأصح أن یوضع کما تیسر فإن ذالك یختلف باختلاف الأماکن والمواضع."

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص؛102، ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره) تحريماً (استقبال القبلة بالفرج) ولو (في الخلاء) بالمد: بيت التغوط، وكذا استدبارها (في الأصح كما كره) لبالغ (إمساك صبي) ليبول (نحوها، و) كما كره (مد رجليه في نوم أو غيره إليها) أي عمداً لأنه إساءة أدب، قاله منلا ناكير، (أو إلى مصحف أو شيء من الكتب الشرعية إلا أن يكون على موضع مرتفع عن المحاذاة) فلايكره، قاله الكمال".

"(قوله: مد رجليه) أو رجل واحدة ومثل البالغ الصبي في الحكم المذكور ط (قوله أي عمداً) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط....(قوله: لأنه إساءة أدب) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط، لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته. قال: وهذا يقتضي التحريم فليحرر، (قوله: إلا أن يكون) ما ذكر من المصحف والكتب؛ أما القبلة فهي إلى عنان السماء".

( كتاب الصلاة، بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا، مطلب في الاحكام المساجد، ج:1، ص:655،  ط: سعيد) 

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"‌وكيفية ‌الوضع عند بعض أصحابنا الوضع طولا كما في حالة المرض إذا أراد الصلاة بإيماء ومنهم من اختار الوضع كما يوضع في القبر والأصح أنه يوضع كما تيسر، كذا في الظهيرية."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الثاني في الغسل، ج:1، ص:158، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں