بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معاوضہ دے کر اسائنمنٹ لکھوانا


سوال

آج کل متعدد ممالک کے سکول کالج اور یونیورسٹی کے  طلبہ اپنے اسائنمنٹ (گھر کے لیے دیا گیا کام)  معاوضہ دے کر کرواتے ہیں۔ اس کاروبار میں اسائنمنٹ حل کرنے والے ماہر تک ایک یا دو ایجنٹوں تک پہنچتا ہےـ اور سب لوگ طے شدہ بیع  کے مطابق کماتے ہیں۔ کیا اس کاروبار سے ملنے والی رقم حلال ہے؟ ـ جب کہ ٹیچر کی طرف سے اسائنمنٹ طالب علم کے لیے ہوتا ہے کہ وہ اس کو حل کرے اور اپنی قابلیت کے مطابق گریڈ حاصل کرلےـ۔ جب کہ وہ پیسے دے کر کسی ماہر سے کام کروا کر نسبتاً اچھے گریڈ حاصل کر لیتا ہے۔ ـ کیا شرعی لحاظ سے اس کاروبار سے حاصل کی گئی آمدن حلال ہے؟

جواب

تعلیمی خدمات  چاہے دینی ہوں یا دنیوی فراہم کرنے پر اجرت لینا فی نفسہ جائز ہے،  شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی جانب سے طالبِ علم(Student) کو دیا گیا وہ کام جس  سے اس طالبِ  علم کی صلاحیت کا امتحان مقصود ہو، اس کی کارکردگی کا تعین ہو  اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں اس طالب علم کو سند (Degree) جاری کی جاتی ہو ، ایسا تعلیمی کام طالبِ علم  پر بذاتِ خود سرانجام دینا لازم ہے۔ورنہ مستقبل میں یہی طالبِ  علم  نا اہلی کے باوجود اس ڈگری کی بنیاد پر وہ سہولیات  حاصل کرے گا جو اصل ڈگری والوں کا حق ہے۔

لہذا ایسے طلبہ کے لیے اجرت لے کر اسائنمنٹ (Assignment) ، مقالہ جات ، مضامین لکھنا جھوٹ ، دھوکا  دہی اور دوسروں کی حق تلفی میں شامل ہے،اور ایسے ناجائز تعاون پر اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے۔

البتہ  جزوی معاونت،حوالہ جات کی فراہمی یا کمپوزنگ و سیٹنگ میں تعاون کرنا اس میں  داخل نہیں ہے۔

أحكام القرآن للجصاص،ط:العلمية (2 / 381):

"و قوله تعالى: {و لاتعاونوا على الاثم  و العدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں