بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا


سوال

سوات کے ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی حضور نبی علیہ السلام یا صحابہ کے دور میں صرف مہر کے لیے استعمال ہوتی تھی اور مردوں کے لیے بطورِ زینت اس کا استعمال جائز نہیں۔ اب ہمارے زمانے میں کوئی بھی انگوٹھی کو بطورِ مہر استعمال نہیں کرتا، بلکہ سب زینت کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ لہذا نہ تو اس کا استعمال جائز ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لیے اس کی خرید و فروخت۔

آپ سے درخواست ہے کہ اس کی وضاحت کی جائے کہ کیا آج کل انگوٹھی محض زینت کے لیے استعمال ہوتی ہے، لہذا یہ ناجائز ہے؟

جواب

مردوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے، بشرطیکہ اس کا وزن ایک مثقال  سے کم ہو، ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے، خواہ وہ زینت کے لیے ہو یا مہر کے لیے۔ 

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: چاندی کی، مگر اس کا وزن ایک مثقال تک نہ پہونچے۔

حدیثِ مبارک میں چوں کہ  مہر یا زینت کا ذکر نہیں ہے، اس لیے زینت کے لیے پہننا بھی جائز ہوگا، اصل بات یہ ہے کہ چاندی کا وزن ساڑھے چار ماشے تک نہ پہنچے۔

البتہ عام آدمی کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا صرف جائز ہے، سنت یا مستحب نہیں، بلکہ نہ پہننا افضل ہے۔ "فتاوی شامی" میں ہے کہ بادشاہ اور قاضی کے علاوہ عام لوگوں کے لیے  چاندی کی انگوٹھی نہ پہننا افضل ہے۔

"وترك التختم لغير سلطان  والقاضي أفضل". ( شامي، ٩ / ٥٢٩، ط: زكريا)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها؛ فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال.

 (قوله: ولايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير: أي بخلاف المنطقة، فلايكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم، ثم في يد أبي بكر -رضي الله تعالى عنه - إلى أن توفي، ثم في يد عمر - رضي الله تعالى عنه - إلى أن توفي، ثم في يد عثمان - رضي الله تعالى عنه - إلى أن وقع من يده في البئر فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد - رضي الله تعالى عنه -. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قالا: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم  عن خاتم الذهب». وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام؟ فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار؟ فطرحه، فقال: يا رسول الله! من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً»؛ فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام، فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني. والشبه محركاً النحاس الأصفر، قاموس. وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: ولايزيده على مثقال) وقيل: لايبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام: «ولا تتممه مثقالاً»".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں