کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام و علمائے عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت پیش آجائے، جبکہ ان کا ایک نومولود بچہ بھی ہو، جو کہ پرورش کا محتاج ہو، مگر والدین میں سے کوئی بھی اس بچے کی پرورش اور اسے اپنے پاس رکھنے پر راضی نہ ہوں، اسی طرح بچے کی ددھیال اور ننھیال میں سے بھی کوئی خاتون اس کی پرورش کرنے پر تیار نہ ہو، تو ایسی صورت میں اس بچے کی پرورش زمانۂ حضانت میں کس کے ذمّے ہوگی؟ اور کیا اولاد کی پرورش کے سلسلے میں ماں یا کسی قریبی خاتون پر جبر کیا جاسکتا ہے؟
نیز اگر ماں دوسری جگہ شادی کر لیتی ہیں تو اس صورت میں ماں پر اولاد کی پرورش کے حوالے سے جبر ہوگایا نہیں؟
اور اگر معاملہ عدالت تک چلا جاتا ہے اور بچے کی ماں دوسری جگہ شادی کر چکی ہو، تو کیا عدالت کسی قریبی خاتون پر بچے کی پرورش کے سلسلے میں جبر کر سکتی ہے یا نہیں؟ اور عدالت کس معیار اور کسوٹی پر جبر کرے گی؟
واضح رہے کہ بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت والدین کی اوّلین ذمّہ داری اور اخلاقی فریضہ ہے، اور یہ بچوں کے بنیادی حقوق میں سے ہیں۔ اس ذمّہ داری کی ادائیگی میں والدین کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوتاہی بچوں کے مستقبل اور ان کے اخلاق و کردار پر بڑا اثر رکھتی ہے، ماں کی محبتوں اور پدری شفقتوں سے محرومی جس طرح اولاد کے لیے خوش آئند نہیں ہے اسی طرح خود والدین کے لیے بھی باعثِ مسرت نہیں ہوگی، لہٰذا میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت پیش آنے پر ماں کا بلا وجہ شرعی اپنے نومولود بچے کی پرورش سے انکار کرنا اور ایک ماں ہونے کی حیثیت سے اسے اپنی ممتا اور گود سے محروم کرنا شرعًا و اخلاقاً درست نہیں ہے، تاہم پرورش سے انکار کے باوجود ماں کے علاوہ اگر خاندان کی کوئی خاتون اس بچے کی پرورش پر راضی ہے تو اس صورت میں ماں پر جبر نہیں کیا جائے گا، البتہ اگر بچے کے ددھیال اور ننھیال (مثلاً: نانی، دادی، خالہ، پھوپھی وغیرہ) میں سے کوئی ایک خاتون بھی اس کی پرورش کرنے پر تیار نہ ہو، تو ایسی صورت میں جب تک ماں دوسری جگہ شادی نہیں کرلیتی بچے کی پرورش ماں کے ذمّے ہوگی اور اس حوالے سے ماں پر جبر بھی کیا جائے گا، یہاں تک کہ بچہ سات سال کا ہوجائے، سات سال کی عمر ہونے کے بعد بچہ باپ کی پرورش میں آجائے گا۔
اور اگر ماں کسی ایسے شخص سے شادی کرلیتی ہے جو بچے کے لیے اجنبی اور نامحرم ہو اور خاندان کی کوئی ایک خاتون بھی (جن کا ذکر ماقبل سطور میں بین القوسین ہوا)بچے کی پرورش پر تیار نہ ہو تو اس صورت میں نہ تو ماں پر بچہ کی پرورش کے معاملہ میں جبر کیا جائے گااور نہ ہی خاندان کی کسی خاتون پر، بلکہ یہ معاملہ خاندان کے بڑے اور اربابِ حل و عقد کے ذریعے حل کیا جائے گا اور ماں یا خاندان کی کسی خاتون کو بچے کی پرورش پر راضی کیا جائے گا، اس کے باوجود بھی اگر کوئی پرورش پر راضی نہ ہو تو یہ معاملہ مسلمان قاضی یا جج کی عدالت میں پیش کیا جائے گا، پھر وہ اپنی صوابدید پر اور پرورش کے حوالے سے ماں یا خاندان کی جو بھی خاتون موزوں ہو، اس بنیاد پر اس پر جبر کر سکتا ہے۔ باقی زیر نظر مسئلہ میں بچے کی پرورش کے حوالے سے جو بھی اخراجات ہوں گے، وہ والد کے ذمّہ ہوں گے، نیز جب تک ماں عدت میں ہو پرورش کی خدمت کے معاوضہ میں کسی بھی قسم کی اجرت کا مطالبہ نہیں کرسکتی، البتہ عدت کے بعد اگر ماں بچے کی پرورش پر والد سے حق الخدمت لینا چاہے تو مناسب حق الخدمت لے سکتی ہے۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"اعلم بأن الصغار لما بهم من العجز عن النظر لأنفسهم والقيام بحوائجهم؛ جعل الشرع ولاية ذلك إلى من هو مشفق عليهم فجعل حق التصرف إلى الآباء لقوة رأيهم مع الشفقة والتصرف يستدعي قوة الرأي وجعل حق الحضانة إلى الأمهات لرفقهن في ذلك مع الشفقة وقدرتهن على ذلك بلزوم البيوت والظاهر أن الأم أحفى وأشفق من الأب على الولد فتتحمل في ذلك من المشقة ما لا يتحمله الأب وفي تفويض ذلك إليها زيادة منفعة للولد."
(كتاب النكاح، باب حكم الولد عند افتراق الزوجين، ج:5، ص:207، ط:دار المعرفة بيروت)
الفتاوی السراجیۃ میں ہے:
"إذا بانت المسلمة أو الذمية أو الكافرة من زوجها وبينهما ولد صغير فهي أولى بالحضانة مالم تزوج بزوج آخر ليس بذي رحم محرم من الولد إلى أن تحيض الجارية ويستغي الولد الذكر فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده، فإذا استغنى دفع إلى الأب، فإن لم يكن له أب دفع إلى الجد."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ص:48، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخلاصة وقال مشايخنا ولا تجبر الأم عليها وكذلك الخالة إذا لم يكن لها زوج؛ لأنها ربما تعجز عن ذلك اهـ. فأفاد أن غير الأم كالأم في عدم الجبر بل هو بالأولى كما في الولوالجية وذكر الفقهاء الثلاثة أبو الليث والهندواني وخواهر زاده أنها تجبر على الحضانة....
فالحاصل أن الترجيح قد اختلف في هذه المسألة والأولى الإفتاء بقول الفقهاء الثلاثة لكن قيده في الظهيرية بأن لا يكون للصغير ذو رحم محرم فحينئذ تجبر الأم كي لا يضيع الولد أما إذا كان له جدة مثلا وامتنعت الأم من إمساكه ورضيت الجدة بإمساكه فإنه يدفع إلى الجدة؛ لأن الحضانة كانت حقا لها، فإذا أسقطت حقها صح الإسقاط منها وعزا هذا التفصيل إلى الفقهاء الثلاثة وعلله في المحيط بأن الأم لما أسقطت حقها بقي حق الولد فصارت الأم بمنزلة الميتة أو المتزوجة فتكون الجدة أولى، وظاهر كلامهم أن الأم إذا امتنعت وعرض على من دونها من الحاضنات فامتنعت أجبرت الأم لا من دونها، ولذا قيدوا جواب المسألة بأن رضيت الجدة بإمساكه."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:4، ص:166، ط:ايج ايم سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ولا تجبر) من لها الحضانة (عليها إلا إذا تعينت لها) بأن لم يأخذ ثدي غيرها أو لم يكن للأب ولا للصغير مال به يفتى خانية.وإذا أسقطت الأم حقها صارت كميتة، أو متزوجة فتنتقل للجدة بحر......ولو لم يوجد غيرها أجبرت بلا خلاف فتح، وهذا يعم ما لو وجد وامتنع من القبول بحر، وحينئذ فلا أجرة لها جوهرة."
وفي الرد: (قوله: وهذا يعم إلخ) أي قوله " ولو لم يوجد غيرها " يشمل عدم الوجود حقيقة وعدمه حكما، بأن وجد غيرها وامتنع. وعبارة البحر هكذا: وظاهر كلامهم أن الأم إذا امتنعت وعرض على من دونها من الحاضنات فامتنعت أجبرت الأم لا من دونها. (قوله: وحينئذ) أي حين لم يوجد غيرها فلا أجرة لها لأنها قامت بأمر واجب عليها شرعا ط. وعبارة الجوهرة: إذا كان لا يوجد سواها تجبر على إرضاعه صيانة له عن الهلاك وعليه لا أجرة لها...... ورأيت بخط شيخ مشايخنا السائحاني قال البرجندي: تجبر الأم على الحضانة إذا لم يكن لها زوج، والنفقة على الأب. وفي المنصورية أن أم الصغيرة إذا امتنعت عن إمساكها ولا زوج للأم تجبر عليه وعليه الفتوى. وقال الفقيه أبو جعفر. تجبر وينفق عليها من مال الصغيرة، وبه أخذ الفقيه أبو الليث."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:560، ط:ايج ايم سعيد)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:
"(سئل) في حاضنة لابنها الصغير تزوجت بأجنبي وليس للصغير غيرها سوى عمة مزوجة بأجنبي أيضا فكيف يفعل به؟
(الجواب) : قال القهستاني نقلا عن المحيط إذا اجتمع النساء الساقطات الحق يضع القاضي الصغير حيث شاء منهن اهـ. وأفتى الخير الرملي تبعا للعلامة الشهاب الشلبي في مثل هذه الواقعة بأن إبقاء الصغير عند أمه أولى لكمال شفقتها."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:1، ص:61، ط:دار المعرفة بیروت)
الفتاوی الخیریۃ میں ہے:
"سئل في صغيرة لها أم وجدة أم أم، وأخت شقيقة ساقطات الحق من الحضانة؛ لكونهن متزوجات بأجانب، ولها أخ لأب، هل له أن يحضنها أم لا؟ أجاب: نعم! ساقطات الحضانة بالتزوج بالأجانب كالميتات كما في البحر وغيره، فحق الحضانة للأخ والحال هذه، وفي التاترخانية بعد أن رمز للمحيط: وإذا اجتمعت النساء ولهن أزواج أجانب يضعه القاضي حيث شاء."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة،مطلب ساقطة الحضانة بالتزويج بالأجنبي كالميتة، ج:1، ص:196، ط:المكتبة النعيمية باكستان)
وفيه أيضاً:
" سئل في صغيرة لها أم متزوجة بأجنبي، ولها خالة أم وأب، هل تدفع للأب أم لخالة الأم؟ أجاب: تدفع لخالة الأم؛ لأن النساء أقدر على الحضانة من الرجال، فتدفع لخالة الأم إلى انقضاء مدة الحضانة."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، مطلب تزوجت أم الصغيرة بأجنبي، فخالتها أولى بها من أبيها، ج:1، ص:200، ط:المكتبة النعيمية باكستان)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1 ص:560 ط:المكتبة الرشیدیة كوئته)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100072
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن