بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں کے شادی کرلینے کے بعد بچوں کی پرورش کا حق دار کون ہے؟


سوال

میری تین اولاد مختلعہ سابقہ بیوی سے ہیں، خالعہ کا اب عقد ثانی ہوئے ایک سال کا عرصہ متجاوز ہوگیا ہے، میری اولاد کی نانی کا ذہنی توازن مستقل بگڑا ہوا رہتا ہے، اس صورت میں اولاد کا حاضن کون ہوگا؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر واقعۃً سائل کا اپنی بیوی سے رشتہ شرعاً ختم ہوچکا ہے، اور اس نے بچوں کے نامحرم شخص سے نکاح بھی کرلیا ہے،نیز  بیٹوں کی عمر سات سال سے کم،  اور  بیٹیوں کی عمر نو سال سے  کم ہے، اور  بچوں کی نانی کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے، توان بچوں کی پرورش کااختیار ابتداءاً بچوں کی دادی کو ہوگا۔

اگر دادی نہ ہوں یا انہیں سنبھالنے پر قادر نہ ہوں، تو پرورش کا حق پھر خالاؤں کو ہوگا، بشرط یہ کہ ان کی شادی ایسے شخص سے نا ہوئی ہو، جو بچوں کےلیے نامحرم ہو، اور اگر کوئی خالہ بھی ایسی نہ ہو، تو پھر بچوں کی پرورش کا اختیاران کی اس پھوپھی کو ہوگا،جس کی شادی بچوں کےلیے نامحرم شخص سے نہ ہوئی ہو۔

اگر یہ بھی میسر نہ ہوں تو بچوں کی پرورش کا حق بالترتیب ماں کی خالہ، باپ کی خالہ، ماں کی پھوپھی، باپ کی پھوپھی کو ہوگا، اور اگر ان میں سےکوئی بھی عورت میسر نہ ہو، تو پھر بچوں کی پرورش کا اختیار ان کے باپ کو ہوگا۔

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار سوى فاسق ومعتوه وابن عم لمشتهاة وهو غير مأمون، ثم إذا لم يكن عصبة فلذوي الأرحام.

(قوله: ثم الخالات) أي خالات الصغير . . . (قوله: ثم العمات كذلك) أي تقدم العمة لأب وأم ثم لأم ثم لأب، ولم يذكر بنات الخالة والعمة لأنه لا حق لهن لأنهن غير محرم بحر، ويأتي الكلام فيه. (قوله: ثم عمات الأمهات والآباء) قياس ما ذكره في الخالات تقديم عمات الأم على عمات الأب، ويفيده ما مر من أن هذا الحق لقرابة الأم، وكذا ما في كافي الحاكم من قوله وكل من كان من قبل الأم فهو أولى ممن هو من قبل الأب. (قوله: بهذا الترتيب) أي العمة لأبوين ثم لأم ثم لأب. (قوله: ثم العصبات) أي إن لم يكن للصغير أحد من محارمه النساء بحر، أو كان إلا أنه ساقط الحضانة لأنه كالمعدوم رملي."

(ص:٥٦٢،ج:٣،کتاب الطلاق، باب الحضانة، ط: ايج ايم سعيد)

منحة الخالق علي هامش البحر الرائق   میں ہے:

"(باب الحضانة) : (قوله والحاضنة المرأة إلخ) قال الرملي ولها شروط أن تكون حرة بالغة عاقلة أمينة قادرة وأن تخلو من زوج أجنبي وإن كان الحاضن ذكرا فشرطه أن يكون كذلك ما عدا الأخير، وهذا قلته منفردا به أخذا من كلامهم ولم أر أحدا ذكر هذه الشروط على هذه الكيفية على علمي الآن والله تعالى هو الموفق اهـ.

قلت: وينبغي أن يزيد بعد قوله حرة أو مكاتبة لو ولدها مثلها؛ لأن المكاتبة إذا ولدت في الكتابة فحضانته لها كما سيأتي وأن يزيد بعد قوله وأن تخلو من زوج أجنبي أو مبغض للولد كما سيأتي عن القنية تأمل وينبغي أن يزيد في الشروط وعدم ردتها إلا أن يقال يغني عنه قوله قادرة؛ لأنها تحبس وتضرب."

(ص:١٧٩،ج:٤،کتاب الطلاق،باب الحضانة،ط:دار الکتاب الإسلامي)

الفتاوي الهندية   میں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."

(ص:٥٤٢،ج:١،کتاب الطلاق، الباب السادس عشر الحضانة، ط: دار الفكر، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں