بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رمضان 1446ھ 15 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مالک کی اجازت کے بغیر کمپنی سے کمیشن لینا


سوال

میں ایک تجارتی ادارے میں کام کرتا ہوں ، میری ماہانہ تنخواہ بھی مقرر ہے،  میرے ذمہ بہت سارے کام ہیں ، ان میں سے ایک یہ  بھی ہے کہ کچھ اداروں کو مال کی فروخت کی نگرانی کرتا ہوں ، آرڈر لے کر آتا ہوں  اور  آرڈر کے بدلے وہ مال سپلائی ہوتا ہے، مگر کسی کسی آرڈر کے تحت میں اپنے ادارے سے کمیشن بھی لیتا ہوں اور اس بات میں ادارے کے تین شرکاء میں سے ایک کی رضامندی بھی ہے، تو  کیا اس طرح کمیشن لینا میرے  لیے جائز ہے یا کوئی  شرعی رکاوٹ ہے؟ 

نوٹ: جس ایک شریک کی طرف سے اجازت ہے  وہ بھی کمیشن کی رقم میں سے کچھ حصہ رکھتے ہیں، یہ بات اگر دوسرے شرکاء  کو پتہ چلے گی تو معاملات بگڑ جائیں گے۔

جواب

کوئی  ادارہ یا کمپنی کسی کو مال خریدنے یا بیچنے پر مامور کرے، تو وہ شخص اس ادارہ کی طرف سے وکیل بن جاتا ہے، اور وہ وکیل جب    ملازم ہو اور اس کے لیے تنخواہ بھی  مقرر ہو، تو اس کا ادارہ یا کمپنی کے لیے کام  کرنے میں کمیشن لینا جائز نہیں ہے، کام کرنا اس کے فرضِ منصبی میں داخل ہے، لہذا یہ کمیشن  رشوت اور خیانت کے حکم میں آئے گا، جو کہ حرام ہے، وکیل کے لیے اپنی مقررہ تنخواہ سے زائد وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں ملازم اور ایک شریک کا خفیہ طور پر ادارہ سے کمیشن وصول کرنا درست نہیں ہے،  یہ ادارے  کے  ساتھ خیانت ہے، جتنی رقم کمیشن کے نام پر وصول کی ہے وہ ادارہ کو واپس لوٹانا ضروری ہے، ہاں اگر سائل کے مال بیچنے سے ادارہ کو فائدہ ہو، اور تمام شرکاء اپنی رضامندی سے سائل کو اس نفع میں سے کچھ حصہ دینا چاہیں تو بطورِ  ہدیہ  دے سکتے ہیں، اس کے علاوہ سائل کا از خود کمیشن لینا درست نہیں ہے۔

معالم السنن میں ہے: 

"قال أبو داود: حدثنا أحمد بن يونس حدثنا ابن أبي ذئب عن الحارث بن عبد الرحمن، عَن أبي سلمة عن عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي.

قال الشيخ: الراشي المعطي، والمرتشي الآخذ، وإنما يلحقهما العقوبة معاً إذا استويا في القصد والإرادة فرشا المعطي لينال به باطلاً ويتوصل به إلى ظلم."

(کتاب القضاء، ج:4، ص:161،  ط: المطبعة العلمية)

درر الحکام میں ہے :

"‌الأجير ‌يستحق ‌الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل.أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة."

(المادة:425، ج:1، ص:458، ط: دار الجيل)

وفیه أيضا:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة و أوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. و في الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة."

(المادة:1467، ج:3، ص:573، ط:دارالجیل)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں