بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی معاونت کے وعدہ کو پورا کرنا کیا واجب ہے؟


سوال

ہمارا ایک ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر کراچی میں واقع ہے، اور اس ادارے کا ایک ذیلی دفتر لاہور شہر میں واقع ہے۔ ادارے کے چھ ڈائریکٹر ز ہیں۔ ادارے کے ذمہ دار  نے اپنے ذیلی ادارے کے منیجر جو کہ ڈائر یکٹر بھی ہیں ، سے زبانی یہ کہا تھا کہ آپ اپنی ( ذاتی ) گاڑی فروخت کر کے اس سے بہتر گاڑی لے لیں، اور بطور مشورہ  ایک ماڈل  متعین  کیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وعدہ  زبانی ہو ا تھا اور ادارتی ریکارڈ  میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

مذکورہ مینیجر نے اپنی گاڑی خود فروخت کری، اور دوسری  گاڑی بھی خود ہی خریدی، اس خرید و فروخت میں ادارہ شامل نہیں تھا۔

اس  متعین  ماڈل کی گاڑی کے خریدنے کے لئے چار لاکھ اضافی رقم درکار تھی ، یہ رقم ادارے سے ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ ایک سال کے اندر چار لاکھ میں سے ایک لاکھ رقم منیجر کو ادا کر دی گئی ہے،  جوکہ بطور بونس دی گئی، ادارہ  کے اکاؤنٹ میں بھی بونس ہی کے نام سے  درج ہے، گاڑی کی بقیہ رقم کی  ادائیگی کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ جب کہ تین لاکھ باقی ہیں ۔

ڈائر یکٹر کو یہ سہولت دینے کی ایک وجہ : گزشتہ دس سال سے ان کی ادارے کو دی گئی خدمات اور قربانیاں تھیں۔

دوسری وجہ : مرکزی دفتر سے جب ذیلی دفتر جانا ہوتا تھا تو اس صورت میں بھی مذکورہ منیجر کی ذاتی  گاڑی زیر استعمال رہتی تھی۔

کچھ عرصہ قبل انتظامی بے قاعدگی کی وجہ سے ادارتی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ذیلی دفتر کے منیجر کی ذمہ داریاں محدود کر دی گئیں تھیں۔ بہر حال اسی دوران انہوں استعفیٰ دے کر اپنا ذاتی ادارہ کھول لیا۔ استعفیٰ دینے کے بعد انہوں نے ہمارے ادارے کے کلائینٹس کو فون کر کے اپنے ذاتی ادارے کے ساتھ منسلک ہونے کی دعوت دینا شروع کر دی ہے نتیجے میں ہمارا ادارہ اس وقت اپنے ایک کلائنٹ کو بظاہر کھو دینے والا ہے۔

حاصل یہ کہ منیجر کے استعفی دے کر چلے جانے کے بعد ان کی طرف سے ادارے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ آیا اب ادارے کے ذمہ بقیہ تین لاکھ رقم کی ادائیگی لازم ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اب وہ ادارے کے ڈائر یکٹر نہیں رہے اور الٹا ادارہ کو نقصان بھی پہنچارہے ہیں۔

از راہ کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن 

جواب

واضح رہے کہ ادارے کے ذمہ دار اور مینجر کے درمیان جو معاہدہ ہوتا ہے،  اس پر عمل کرنا ضروری ہے،  معاہدہ زبانی ہو یا تحریری دونوں کا حکم برابر ہے،  لہذا اگر زبانی معاہدے میں مزید چار لاکھ ادا کرنے کی کوئی مدت تھی یا مینیجر کا ملازمت پر برقرار رہنے کی شرط تھی تو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے،  اور اگر اس طرح کی کوئی شرط نہیں تھی تو یہ تعاون کے حکم میں ہوگا، جس کی حیثیت ہدیہ دینے کے وعدہ  کی ہے، جسے ادارے سے مستعفی ہو جانے کے باوجود اخلاقا پورا کرنا چاہیے ، تاہم پورا کرنا لازم نہیں ہوگا کیوں کہ ہدیہ دینا تبر ع ہے،  پس اگر ادارہ مذکورہ شخص کو تین لاکھ کی ادائیگی نہیں کرتا تو وعدہ خلافی تو ہوگی لیکن مذکورہ مینیجر کو تین لاکھ مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا کیونکہ یہ تنخواہ کا حصّہ نہیں ہے ۔

سنن الترمذي  میں ہے:

" ١٩٩٥ - حدثنا ‌زياد بن أيوب البغدادي، قال: حدثنا ‌المحاربي ، عن ‌الليث وهو ابن أبي سليم ، عن ‌عبد الملك، عن ‌عكرمة ، عن ‌ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تمار أخاك، ولا تمازحه،» ولا تعده موعدا فتخلفه

هذا حديث غريب. لا نعرفه إلا من هذا الوجه."

( أبواب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في المراء، ٣ / ٥٣١، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

سنن أبي داودمیں ہے:

" ٤٩٩٥ - حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا أبو عامر، حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن علي بن عبد الأعلى، عن أبي النعمان، عن أبي وقاص، عن زيد بن أرقم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «إذا وعد الرجل أخاه، ومن نيته أن يفي له فلم يف ولم يجئ للميعاد فلا إثم عليه»."

( كتاب الأدب، باب في العدة، ٤ / ٢٩٩، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

" قال النووي: أجمعوا على أن من وعد إنسانا شيئا ليس بمنهي عنه فينبغي أن يفي بوعده، وهل ذلك واجب أو مستحب؟ فيه خلاف ; ذهب الشافعي وأبو حنيفة والجمهور إلى أنه مستحب، فلو تركه فاته الفضل وارتكب المكروه كراهة شديدة، ولا يأثم يعني من حيث هو خلف، وإن كان يأثم إن قصد به الأذى قال: وذهب جماعة إلى أنه واجب ; منهم عمر بن عبد العزيز، وبعضهم إلى التفضيل. ويؤيد الوجه الأول ما أورده في الإحياء ; حيث قال: وكان - صلى الله عليه وسلم - إذا أوعد وعدا قال: عسى، وكان ابن مسعود لا يعد وعدا إلا ويقول: إن شاء الله تعالى، وهو الأولى. ثم إذا فهم مع ذلك الجزم في الوعد، فلا بد من الوفاء إلا أن يتعذر، فإن كان عند الوعد عازما على أن لا يفي به فهذا هو النفاق. اهـ. وهذا كله يؤيد الوجوب إذا كان الوعد مطلقا غير مقيد بعسى أو بالمشيئة ونحوهما، مما يدل على أنه جازم في وعده."

( كتاب الآداب، باب المزاح، ٧ / ٣٠٦٧، ط: دار الفكر )

لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

" قيل: فيه دليل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب شرعي، بل هو من مكارم الاخلاق بعد أن كان نيته الوفاء، وأما جعل الخلف في الوعد من علامات النفاق فمعناه الوعد على نية الخلف، وقيل: الخلف في الوعد من غير مانع حرام، وهو المراد هنا، وكان الوفاء بالوعد مأمورا به في الشرائع السابقة ايضا."

( باب الوعد، الفصل الثاني، ٨ / ١٨٠ - ١٨١، ط: دار النوادر، دمشق - سوريا)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز.

وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له حتى لو حلف أن لا يهب فوهب ولم يقبل الآخر حنث، كذا في محيط السرخسي."

( كتاب الهبة، الباب الأول في تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ٤ / ٣٧٤، ط: دار الفكر )

التعريفات الفقهية للبركتي میں ہے:

" الهبة: في اللغة التبرع بما ينتفع به الموهوب، وفي الشرع: تمليك العين بلا عوض ويقال لفاعله: واهب ولذلك المال موهوب ولمن قبله الموهوب له."

( الهاء، ص: ٢٤١، ط: دار الكتب العلمية )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" في الفتاوى الغياثية الرجوع في الهبة مكروه في الأحوال كلها ويصح، كذا في التتارخانية. يجب أن يعلم بأن الهبة أنواع، هبة لذي رحم محرم وهبة لأجنبي أو لذي رحم ليس بمحرم أو لمحرم ليس بذي رحم وفي جميع ذلك للواهب حق الرجوع قبل التسليم هكذا في الذخيرة، سواء كان حاضرا أو غائبا أذن له في قبضه أو لم يأذن له، كذا في المبسوط."

( كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع وما لا يمنع، ٤ / ٣٨٥، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں