بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مال کا آرڈر دینے میں پیشگی رقم اور اس مال کی زکوٰۃ کا حکم


سوال

ہمار ا الیکٹرانک آئٹم کا کاروبار ہے، ہم چائنہ میں مختلف لوگوں سے آرڈر پر مال بنواتے ہیں، جن میں     اسپیکرز ،  ٹیبلیٹ، چارجر، اور دیگر موبائل  وغیرہ ایسیسریز شامل ہیں،  آرڈر دیتے وقت  مطلوبہ چیز کی مکمل  کوالٹی، مقدار ، اور قیمت وغیرہ سب طے ہوجاتی ہے، اس رقم کا تقریباً30 فیصد ہم ایڈوانس دیتے ہیں،  اس کے بعد آرڈر لینے والا شخص  خام   مال، اور دیگر سامان  خرید کر ہماری مطلوبہ چیز تیار کرکے دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ :

1۔ جو پیشگی رقم ہم ادا کردیتے ہیں  ، کیا اس کی زکوٰۃ ہمارے ذمہ لازم ہوگی؟

2۔ جس مال کا ہم نے آرڈر کیا ہے، اس کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں جب  آپ       اسپیکرز ،  ٹیبلیٹ، چارجر، اور دیگر موبائل  وغیرہ ایسیسریز بنوانے کا آرڈر دیتے ہیں، اور آرڈر  دیتے وقت کوالٹی، مقدار، قیمت اور ضروری اوصاف طے ہوجاتے ہیں  تو شرعاً  یہ ”استصناع “ کا معاملہ ہے، اس میں جو رقم آپ پیشگی ادا کردیتے ہیں یہ  آپ کی ملکیت سے نکل کر ،   صانع(کارخانے والے) کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اور  آرڈر  دیا ہوا مال ، تیار  ہونے کے  بعد جب تک آپ   کے  قبضہ میں نہ آجائے، تب تک وہ بھی  صانع (کارخانے والے)  کی ملکیت میں ہوتا ہے،لہذا:

1۔ سائل مال  بنوانے کا آرڈر  دیتے ہوئے جو پیشگی رقم  ادا کرتا ہے، وہ چوں کہ اس کی ملکیت سے نکل جاتی ہے، اس لیے اس کی زکوٰۃ  سائل پر لازم نہیں ہے۔

2۔ آرڈر  کا مال تیار ہونے کے بعد ، جب تک سائل کے قبضہ میں نہ آجائے ، چوں کہ اس مال میں سائل کی ملکیت نہیں آتی ، اس لیے  قبضہ سے پہلے اس مال کی زکوٰۃ ادا  کرنا سائل پر لازم نہیں ہے، مال تیار ہوکر قبضہ کرلینے کے بعد اس کی زکوٰۃ ادا کرنا سائل پر لازم ہوگا۔

       فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف أما فيما لا تعامل فيه كالاستصناع في الثياب بأن يأمر حائكا ليحيك له ثوبا بغزل من عند نفسه لم يجز كذا في الجامع الصغير وصورته أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا وكذا لو قال لسقاء أعطني شربة ماء بفلس أو احتجم بأجر فإنه يجوز لتعامل الناس، وإن لم يكن قدر ما يشرب وما يحتجم من ظهره معلوما كذا في الكافي الاستصناع ينعقد إجارة ابتداء ويصير بيعا انتهاء قبل التسليم بساعة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(3/ 207،  کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ط: رشیدیہ)

بدائع الصنائع  ميں هے:

"وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم."

 (5 / 3، كتاب الاستصناع، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"فصح بيع الصانع) لمصنوعه (قبل رؤية آمره) ولو تعين له لما صح بيعه.

(قوله فأخذه) أي الآمر (قوله بلا رضاه) أي رضا الآمر أو رضا الصانع (قوله قبل رؤية آمره) الأولى قبل اختياره لأن مدار تعينه له على اختياره، وهو يتحقق بقبضه قبل الرؤية ابن كمال."

 (5 / 225،باب السلم ، مطلب في الاستصناع، ط: سعيد )

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة ."

 (2 / 9، كتاب الزكاة، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں